بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

میراث تقسیم کرنے میں تاخیر کرنا


سوال

میرے والد صاحب کا انتقال  جنوری 2006 میں ہوا ،والد ہ   محترمہ   ماشاء اللہ حیات  ہیں ،  ہم تین بہنیں اور پانچ بھائی ہیں ، گھر  ابو  کا ہے،  ایک  پلاٹ بھی ابو  نے  کافی عرصہ سےلے کر رکھا ہوا تھا  لیکن پھر وہ ابو کے زندگی میں گم ہوگیا  تھا کا غذی طور پر تعیین  تھی لیکن  ظاہراً تعیین  نہیں  تھی، بعد میں جب معلومات   کی گئیں تو پتہ چلا  کہ قبر ستا ن  میں چلا گیا ہے، ابھی انتقا ل کےبعد تعیین ہو گئی ہے کہ قبرستا ن  میں  نہیں ہے، ابو  کی زندگی میں    تو یہی تھا کہ پلاٹ  پر پھر دوبارہ سے رقم خرچ کرنی پڑے گی،  لہٰذا یہی تھا کہ پلاٹ گم ہوگیا،والد صاحب کے انتقال کےبعد کسی نےکہا کہ مجھے فائل دو  معلومات کرنی  ہےمل گیا تو بیچ دیں گے ، اب پلاٹ تو مل گیا  کچھ  پیسے ابو کے رکھے تھے  وہ ا س پر تما م ورثاء کی رضامندی سے لگائے پھر  بھی مسئلہ کلئیر نہیں ہوا،   اب پھر اس کے پیچھے بھاگ دوڑ   کرنی ہے لیکن سب ایک دوسرے کے بھروسے پر بیٹھے ہوئے ہیں ۔

ابو کی زندگی میں صرف بڑے بھائی جان کی شادی ہوئی، بعد میں جیسے جیسے سب کی شادی ہوتی گئی سب الگ الگ کرائے کے گھر میں شفٹ ہوتے گئے۔ اُس گھر  میں امی جان اور بڑے بھائی  جان کی فیملی ہے ابو کے ترکہ کے کچھ پیسےاتنے عرصہ سےرکھے ہوئے ہیں ۔

امی کی طبیعت بہت خراب ہے، ان کا کہنا یہ ہے کہ آپس میں ہرگز نہ لڑنا ، بھائی جان کے چار بیٹے ایک بیٹی ہے ان کا خاص خیال رکھنا ،جب تک ان کے گھر کا سیٹ اپ نہ ہو جائے تب تک اس گھر کو نہ بیچنا ۔ ہم سب بھی بھائی جان کو پریشان نہیں کرناچاہتے، لیکن پوچھنا یہ ہے کہ ہمارا ایسا کرنا شرعی اعتبار سے کسی کی حق تلفی کا سبب تو نہیں بن رہا۔ ہمارا گھرانہ ایک دین دار علماء کا گھرانہ ہے۔ معاشرے میں ایک معزز گھرانہ ہے اس لیے سب خاموش رہتے ہیں، نہیں چاہتے کہ ایک چھوٹے سے گھر  کےسامان کی خاطر آپس کے تعلقات خراب ہوں بھائی جان بھابھی ناراض ہوں لوگ رشتہ دار تماشا بنائیں ۔لیکن آخرت کے فیصلے کا سوچ کر ڈر بھی لگتاہے کہ اگر سب لحاظ لحاظ میں خاموش رہے تو ایسا نہ ہو کہ کسی کی حق  تلفی ہورہی ہو جس کی وجہ سے اللہ پاک کی عدالت میں ہماری پکڑ ہوجائے ۔

آپ ہماری رہنمائی فرمائیں شرعی مسئلہ کیاہے  ؟، کس طرح  ہم بہن بھائی آپس  میں ان  مسائل پر با ت  کریں   کہ کسی  کی حق تلفی  بھی نہ ہو اور آپس کے تعلقات بھی خراب نہ ہو ۔

جواب

شریعت کاحکم یہ ہے کہ: مورِث کے انتقال کے بعد (اگر اس پر قرض وغیرہ ہو تو اسے ادا کرنے اور اگر اس نے جائز مالی وصیت کی ہو تو اسے ایک تہائی سے  نافذ کرنے کے بعد)ورثاء میں جلدازجلدمیراث تقسیم کردی جائے،بلاوجہ اور بغیر کسی      عذرکے تاخیر نہ کی جائے کیوں کہ مرحوم کے انتقال کے بعد اس کی تمام متروکہ جائیداد منقولہ و غیر منقولہ  سےتمام شرعی ورثاء کا حق متعلق ہوجاتاہے اور مشاہدہ  یہی ہے کہ بلاوجہ میراث کی تقسیم  میں تاخیر کرنا بہت سے مفاسد کا سبب بن جاتا ہے،الغرض بہتر اور مناسب یہی ہے کہ فی الوقت آپس کے تعلقات خواہ کتنے ہی اچھےکیوں نہ ہومیراث کی جلد تقسیم کردی جائے  اور ہر وارث کو اس کا شرعی حصہ  دیا جائے،البتہ اگر تمام عاقل بالغ ورثاء فی الوقت متروکہ جائیدادکی تقسیم نہ کرنے پر   متفق ہوں  تو ایساکرنا بھی جائزہے، تاہم اگر اس دوران کوئی شرعی وارث اپنے شرعی حصہ کا مطالبہ کرے  تو اس کا شرعی حصہ دینا ضروری ہے، کسی وارث کا دوسرے وارث کے مطالبہ پر ناراضگی کا اظہار غیر شرعی عمل ہے۔

تبین الحقائق میں ہے:

”قال رحمه الله (وقسم بطلب أحدهم لو انتفع كل بنصيبه) لأن فيها تكميل المنفعة إذا كان كل واحد منهم ينتفع بنصيبه بعد القسمة فكانت القسمة حقا لهم فوجب على القاضي إجابتهم قال رحمه الله (وإن تضرر الكل لم يقسم إلا برضاهم) وذلك مثل البئر والرحا والحائط والحمام؛ لأن القسمة لتكميل المنفعة وفي هذا تفويتها فيعود على موضوعه بالنقض وهذا لأن الطالب للقسمة متعنت وهو يريد إدخال الضرر على غيره مع ذلك فلا يجيبه الحاكم إليه لأنه اشتغال بما لا يفيد بل بما يضر ويجوز بالتراضي؛ لأن الحق لهم وهم أعرف بحاجتهم ولكن القاضي لا يباشر ذلك، وإن طلبوا منه؛ لأن القاضي لا يشتغل بما لا فائدة فيه ولا سيما إذا كان فيه إضرار أو إضاعة للمال لأن ذلك حرام ولا يمنعهم من ذلك؛ لأن القاضي لا يمنع من أقدم على إتلاف ماله في الحكم وهذا من جملته قال رحمه الله (وإن انتفع البعض وتضرر البعض لقلة حظه قسم بطلب ذي الكثير فقط).“

(کتاب القسمة ،فصل اجبار علی القسمة،ج:5،ص:268،ط:دار الکتاب الإسلامی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144604100118

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں