بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 ذو الحجة 1445ھ 01 جولائی 2024 ء

دارالافتاء

 

مرحا،زمل،منحہ اور انابیہ نام رکھنے کا حکم


سوال

31جولائی 2021کو میری بیٹی کی پیدائش ہوئی تھی ،ہم نے اس کا نام"مرحا(MIRHA)"رکھا تھا،بعد میں کسی نے بتایا کہ یہ نام رکھنا درست نہیں ہے،اب ہم چاہتے ہیں کہ "زمل،منحہ یا انابیہ"ان تین ناموں میں سے کوئی نام رکھیں ،تو آپ سے درخواست ہے کہ ان ناموں کے معانی بیان کرکے یہ بتائیں کہ ان میں سے کون سا نام رکھنا درست ہے اور کون سا نہیں ؟

جواب

سوال میں ذکرکردہ ناموں کے معانی اور احکام درج ذیل ہیں :

(1)"مِرحا"(میم کے زیر اور ح کے بعد الف کے ساتھ) عربی قواعد کے اعتبار سے درست نہیں ہے،"مرحہ" (میم کے کسرہ اور آخر میں گول تاء کے ساتھ) " تکبر" کے معنیٰ میں بھی آتا ہے اور اناج کے معنیٰ میں بھی آتا ہے؛ لہٰذا غلط معنیٰ کا احتمال غالب ہونے کی وجہ سے یہ نام رکھنا مناسب نہیں ہے۔

(2)"زمل "(زا کے نیچے زیر اور میم ساکن)کا معنی ہے: (۱)بوجھ (۲)پیچھےسوار ہونے والا،ردیف(۳)کمزور(٤) سست و کاہل، اور اگر"زمل"(زا پر پیش اور میم پر زبر) ہو تو اس کا معنی ہے :بزدل و کمینہ،اور اگر"زمل "( ز کے نیچے زیر اور م پر زبر) اس وزن پر لغت میں کوئی لفظ نہیں مل سکا، اس لیے  یہ نام رکھنابھی  مناسب نہیں۔

(3)"منحہ"(میم کے زیرکے ساتھ)کے معنی گفٹ ،تحفہ کے ہیں،  یہ نام رکھنا درست ہے۔

(4)"انابیہ"اَناب“ (ہمزہ کے فتحہ کے ساتھ )سے اسم منسوب موٴنث ہے ،جس کے معنی ہیں مشک، یا مشک کی  مانند ایک خاص قسم کی خوشبو،اس معنی کے اعتبار سے یہ نام رکھنا درست ہے۔

تاج العروسمیں ہے:

"(و) مرح مرحا: (نشط) ، في (الصحاح) و (المصباح) : المرح: شدة الفرح، والنشاط حتى يجاوز قدره، (و) مرح مرحا، إذا خف، قاله ابن الأثير. وأمرحه غيره. (والاسم) مراح، (ككتاب، وهو مرح) ، ككتف (ومريح، كسكين، من) قوم (مرحى ومراحى) ، كلاهما جمع مرح، (ومريحين) ، جمع مريح، ولا يكسر۔۔۔(والمرحة، بالكسر: الأنبار من الزبيب وغيره) ، وهو المحل الذي يخزن فيه ذالك."

(فصل الميم مع الحاء المهملۃ،7/113۔116،ط:دارالھدایۃ)

وفيه ایضاً:

"‌زمل، يزمل، ويزمل، من حدي ضرب ونصر، زمالا، بالكسر: عدا، وأسرع، معتمدا في أحد شقيه، رافعا جنبه الآخر، وكأنه يعتمد على رجل واحدة، وليس له بذلك تمكن المعتمد على رجليه جميعا. والزمال، ككتاب: ظلع في البعير يصيبه. وقال الأزهري: العرب تسمي لفافة الراوية زمالا، بالكسر، وج ‌زمل، ككتب، وثلاثة أزملة، مثل أشربة. والزامل: من يزمل غيره، أي يتبعه. والزامل من الدواب۔۔۔۔۔وقيل: الزملة: الجماعة، والزملة، بالكسر: ما التف من الجبال والصور من الودي، وما فات اليد من الفسير، كل ذلك عن الهجري. والزميل، كأمير: الرديف على البعير الذي يحمل الطعام والمتاع، وقيل: هو الرديف على الدابة، يتكلم به العرب، كالزمل، بالكسر. وزمله، يزمله، زملا: أردفه، أو عادله، وقال ابن دريد: زملت الرج على البعير، فهو زميل ومزمول، إذا أردفته. وقيل: إذا عمل الرجلان على بعيريهما، فهما زميلان، فإذا كانا بلا عمل فرفيقان۔۔۔۔والزمل، كسكر، وصرد، وعدل، وزبير، وقبيط، ورمان، وكتف، وقسيب، بكسر فسكون ففتح فتشديد، وجهينة، وقبيطة، ورمانة، فهي لغات إحدى عشرة، كل ذلك بمعنى الجبان الضعيف الرذل، الذي يتزمل في بيته، لا ينهض."

(فصل الزاي مع اللام،29/135۔138،ط:دارالھدایہ)

وفيه ایضاً:

"(منحه) الشاة والناقة (كمنعه وضربه) يمنحه ويمنحه: أعاره إياها، وذكره الفراء في باب بفعل ويفعل. ومنحه مالا: وهبه. ومنحه: أقرضه. ومنحه: (أعطاه، والاسم المنحة، بالكسر) ، وهي العطية، كذا في (الأساس) .

(و) قال اللحياني: (منحه الناقة: جعل له وبرها ولبنها وولدها. وهي المنحة) ، بالكسر (والمنيحة)۔۔۔۔الخ.

(فصل الميم مع الحاء المهملۃ،7/154،ط:دارالھدایۃ)

وفيه ایضاً:

"(والأناب كسحاب: المسك) . عن أبي زيد. (أو عطر يضاهيه) ، عن ابن الأعرابي، وأنشد أبو زيد:تعل بالعنبر {والأناب كرما تدل من ذرا الأعناب يعني جارية تعل شعرها} بالأناب. وفي الأساس تقول: (بلد عبق الجناب، كأنه ضمخ بالأناب) أي المسك، وأصبحت {مؤتنبا، (وهو} مؤتنب) بصيغة اسم الفاعل، أي (يشتهي الطعام)."

(فصل الهمزة مع الباء،2/32،ط:دارالھدایۃ)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144305100376

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں