بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

1 ذو القعدة 1446ھ 29 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

میاں بیوی کا ٹریفک حادثہ میں ایک ساتھ انتقال ہوجائے تو تقسیم میراث کا شرعی حکم


سوال

کیافرماتے ہیں مفتیان کرام کہ میری بھانجی اور اُن کے شوہر کا ٹریفک حادثہ میں انتقال ہوا، دونوں میاں بیوی ایک ساتھ موقع پر ہی دم توڑ گئے، حادثے کے دوران ہی مرحومہ کے یہاں بیٹے کی ولادت ہوئی، اور وہ بھی کچھ دیر (تقریباً پندرہ سے بیس منٹ زندہ رہ کر) انتقال کرگیا، جو اُن کی پہلی اولاد تھی۔ مرحومین میں میری مرحومہ بھانجی کے والدین حیات ہیں، جب کہ اُن کےمرحوم شوہر کے والدین کا انتقال ہوچکا ہے، البتہ شوہر کے دو بھائی اور ایک بہن موجود ہیں۔

مذکورہ تفصیل کے مطابق  اب اِن کے درمیان وراثت کی تقسیم کیسے ہوگی؟

جواب

بصورتِ مسئولہ سائل کی مرحومہ بھانجی اور اُن کے مرحوم شوہر میں سے  کس کا انتقال پہلے اور کس کا بعد میں ہوا، معلوم نہ ہو،  تو یہ دونوں میاں بیوی باہم ایک دوسرےکی میراث کے حق دار نہیں ہوں گے، یعنی شوہر کے متروکہ مال سے بیوی کو حصہ نہیں ملے گا اور بیوی کے متروکہ مال سے شوہر کو حصہ نہیں ملے گا،البتہ حادثہ کے دوران جو اُن کا بیٹا پیدا ہوا، چوں کہ وہ کچھ دیر حیات رہ کر انتقال کرگیا تھا، اِس لیے وہ اپنے مرحوم والد کے  کُل ترکہ کا تنہاء وارث ہوگا، اور مرحومہ والدہ کے ترکہ میں اپنے نانا نانی کے ساتھ اپنے حصہ کا حق دار ہوگا،یوں اِس بچہ کو والدین کی میراث میں سے  جو کچھ مجموعی طور پر مِلے وہ اِس کے شرعی وارثین (نانی اور دونوں چچاؤں) میں تقسیم ہوگا۔ تفصیل ذیل میں درج ہے:

مرحوم شوہر کے ترکہ کی تقسیم:

  سب سے پہلے مرحوم کی  جائیداد منقولہ و غیر منقولہ میں سےحقوقِ متقدمہ یعنی  تجہیز و تکفین کا خرچ نکالنے کے بعد ،اگر  اس کے ذمہ کوئی قرضہ ہو  تو اس  کی ادائیگی کے بعد،  اگر انہوں نے  کوئی جائز وصیت کی ہو تو  بقیہ ایک تہائی  مال  میں سے وصیت کو نافذ کرکےباقی  ماندہ ترکہ  کو 12حصوں میں تقسیم  کر کے مرحوم کی ساس (بچہ کی نانی ) کو 2 حصے،مرحوم کے بھائی (بچے کے دونوں چچاؤں ) کو 5-5 حصے کر کے ملیں گے۔مرحوم شوہر کی بہن اور  سُسر(بیٹے کے نانا ) محروم ہوں گے۔

میت(مرحوم شوہر):1/ 12

بیٹا(مرحوم)بھائیبھائیبہن
1محروممحروممحروم
فوت شد

میت (مرحوم بیٹا):6 /12 ...... مافي اليد:1

نانی چچاچچاپھوپھینانا
15محروممحروم
255

یعنی مرحوم شوہر کاتمام منقولہ و غیرمنقولہ ترکہ کے 100 فیصد میں سےساس (بچے کی نانی ) کو16.67فیصد اورمرحوم کے بھائیوں(بچے کے دونوں چچاؤں) میں سےہر ایک  کو41.67 فیصد حصہ ملے گا۔

مرحومہ بیوی کے ترکہ کی تقسیم:

 مرحومہ کی  جائیداد منقولہ و غیر منقولہ میں سےحقوقِ متقدمہ یعنی  تجہیز و تکفین کا خرچ نکالنے کے بعد ،اگر  ان کے ذمہ کوئی قرضہ ہو  تو اس  کی ادائیگی کے بعد،  اگر انہوں نے  کوئی جائز وصیت کی ہو تو  بقیہ ایک تہائی  مال  میں سے وصیت کو نافذ کرکےباقی  ماندہ ترکہ  کو 18  حصوں میں تقسیم کر کے مرحومہ کے والد کو3 حصے، مرحومہ کی والدہ کو  5 حصے،  اور مرحومہ کے دونوں دیوروں ( مرحومہ کے بیٹے کے دونوں چچاؤں) میں سے ہر ایک کو5-5 حصے ملیں گے، جب کہ مرحومہ کی دیورانی (مرحومہ کے بیٹے کی پھوپھو) محروم رہے گی۔

میت(مرحومہ بیوی):6/ 18

والدہوالدبیٹا(مرحوم)
114
33فوت شد

میت (مرحوم بیٹا):6/ 12/ 3 ....مافی الید:4/1

نانیچچاچچاپھوپھینانا
15محروممحروم
255

یعنی مرحومہ کاتمام منقولہ و غیرمنقولہ ترکہ  کے100 فیصد میں سے مرحومہ کے والدکو 16.67فیصداور والدہ کو 27.78 فیصد ملے گا اوردونوں دیوروں (بیٹے کے چچاؤں) میں سے ہر ایک کو 27.78  فیصد ملے گا۔

السراجي فى الميراث میں ہے:

"إذا ماتت جماعة ولا يدرى مات اولا جعلوا كأنهم ماتوا معا  فمال كل واحد منهم لورثته الأحياء  ولا يرث بعض الأموات من بعض  هذا هو المختار."

(السراجي فى الميراث، فصل في الغرقى والحرقى، ص:59، ط:رحمانية)

فتاوی شامی میں ہے:

"ابن الأخ لا يعصب أخته كالعم لا يعصب أخته وابن العم لا يعصب أخته وابن المعتق لا يعصب أخته بل المال للذكر دون الأنثى لأنها من ذوي الأرحام.

وفي الرد: أن من لا فرض لها من الإناث وأخوها عصبة لا تصير عصبة بأخيها."

(کتاب الفرائض، فصل في العصبات، ج:6، ص:783، ط: سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"الجدة الصحيحة كأم الأم وإن علت وأم الأب وإن علا .... ولها السدس لأب كانت أو لأم واحدة كانت أو أكثر فيشتركن في السدس إذا كن ثابتات متحاذيات في الدرجة."

(كتاب الفرائض، الباب الثاني في ذوي الفروض، ج:6، ص:450، ط:دارالفكر)

فقط والله تعالى اعلم بالصواب


فتوی نمبر : 144610101552

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں