میری شادی 16 جولائی 2006 کو ہوئی، میرے دو بچے ہیں، ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہے،میرے اور میری ساس کے درمیان تلخ کلامی کی وجہ سے، میری ساس میری بیوی اور بچوں کو اپنے ساتھ اگست2011 کو لے کر چلی گئی، کہیں کرائے پر مکان لے کرروپوش ہو گئی، اب میری بیوی دوبارہ سے گھر بسانا چاہتی ہے،اب 12،13 سال کا عر صہ ہو چکا ہے، کیا ہمارا نکاح ابھی باقی ہے یا نہیں جب کہ میں نے اب تک اسے کوئی طلاق نہیں دی؟
واضح رہے کہ میاں بیوی کےعلیحدہ رہنے سے خواہ وہ طویل عرصہ ہی کیوں نہ ہو ، دونوں کا نکاح ختم نہیں ہوتا، بلکہ نکاح ختم ہونے کے لیے شوہر کی طرف سے طلاق، یا باہمی رضامندی سے خلع، یا نکاح فسخ ہونے کے اسباب کی موجودگی میں فسخ نکاح کا پایا جانا ضروری ہے،جب تک شوہر زبانی یا تحریری طلاق نہ دے اس وقت تک طلاق واقع نہیں ہوتی،لہذا صورتِ مسئولہ ميں اگر سائل نے واقعۃً کوئی طلاق نہیں دی اور نہ خلع اور فسخ نکاح کا معاملہ ہوا ہے توآپ دونوں کا نکاح برقرار ہے، محض طویل عرصہ جدا رہنے کی وجہ سے نکاح شرعاً ختم نہیں ہوا۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(قوله: وركنه لفظ مخصوص) هو ما جعل دلالة على معنى الطلاق من صريح أو كناية فخرج الفسوخ على ما مر، وأراد اللفظ ولو حكما ليدخل الكتابة المستبينة وإشارة الأخرس والإشارة إلى العدد بالأصابع في قوله أنت طالق هكذا كما سيأتي."
(كتاب الطلاق،ركن الطلاق،ص:230،ج:3،ط:سعيد)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144602101511
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن