بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

تین طلاق کا حکم


سوال

میری شادی کو تقریباً 16سال ہو چکے ہیں ،تین سال پہلے ہمارا بائیک پر حادثہ ہوا، جس کی وجہ سے بڑی بیٹی شہید ہوگئی، میں بھی  شدید زخمی ہو گئی، ہا تھ کی دو ہڈیاں اور پاؤں کاگھٹناٹوٹ گیا،ڈھائی مہینہ میں بستر پرتھی ماں کے گھر پر ، اس دوران میرے شوہر کاکام بھی چھوٹ گیا ، پھر اچانک انہوں نے نفسیاتی حرکتیں شروع کر دیں ،  کھانا پینا چھوڑ دیا،وہ کہتے ہیں میرے دماغ کو کسی نے پکڑا ہوا ہے،عجیب عجیب شکلیں  بناتے ہیں، نفسیاتی حرکتیں بھی کرتے ہیں، اور پچھلے تین سالوں سے وہ ازدواجی طور پر بالکل زیرو ہو چکے ہیں،کوئی بھی حقوق ادا کرنے سے قاصر ہیں نہ معاشی ذمہ داری نبھا رہے ہیں، ہم نے انہیں  نفسیاتی ہسپتال میں داخل بھی کروایا،اور ابھی تک دوائی جاری ہے، مگر نہ نہاتے ہیں، نہ کپڑے تبدیل کرتے ہیں، دوائی ختم ہو جاۓ تو مار پیٹ پر آجاتے ہیں، پورے محلے سے بھیک مانگتے ہیں،کھانا مانگتے ہیں ،روز صبح گھر سے نکل جاتے ہیں،  بہر حال ایک دن مغرب کے وقت مجھے بہت غصہ آیا اور میں نے انھیں کنگھی سے مارا، اور کہا ابھی مجھے طلاق دو تو انہوں نے مجھے تین بار طلاق دے دی، ان الفاظ کےساتھ کہ میں تمہیں طلاق دیتاہوں، طلا ق دیتاہوں، طلاق دیتاہوں ، اس وقت انہیں پتہ تھا کہ میں نےاپنی بیوی کو طلاق دےدی ہے،پھرکچھ دیر بعد میں نے ان سے پوچھاکہ میں تمہاری کیا ہو ں ؟انہوں نےجواب  دیا  سابقہ بیوی،تواب میرےلیےشرعی حکم کیاہے؟

جواب

 صورتِ مسئولہ میں شوہر نے جس وقت طلاقیں دیں اس وقت   کے ذکرکردہ  احوال سے  معلوم ہوتا ہے کہ عقل قائم اور حواس بحال تھے اور شوہر نے ہو ش وحواس اور اختیار سے طلاقیں دی ہیں، اس لیے تینوں طلاقیں واقع ہوچکی ہیں،بیوی شوہر  پرحرمتِ مغلظہ کےساتھ  حرام ہوچکی ہے،اب شوہر  کےلیےبیوی اپنےپاس رکھنےکی گنجائش نہیں ہے،عدت مکمل ہونےکےبعدعورت  کہیں اورنکاح کرنےمیں آزادہے۔ 

اگر معاملہ ایسا نہ ہو اور طلاق دیتے وقت شوہر کی عقل قائم نہ تھی اور حواس بحال نہ تھے تو پھر حکم دوسرا ہو سکتا ہے،اس لیے بہتر یہ ہے کہ قریب تر دارالافتاء میں میاں بیوی دونوں حاضر ہوں اور پوری کیفیت بتاکر فتوی حاصل کریں۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ولا يقع طلاق الصبي وإن كان يعقل والمجنون والنائم والمبرسم والمغمى عليه والمدهوش هكذا في فتح القدير. وكذلك المعتوه لا يقع طلاقه أيضا وهذا إذا كان في حالة العته أما في حالة الإفاقة فالصحيح أنه واقع هكذا في الجوهرة النيرة."

(كتاب الطلاق، الباب الأول في تفسير الطلاق وركنه وشرطه وحكمه ووصفه وتقسيمه،فصل فيمن يقع طلاقه وفيمن لا يقع طلاقه،ج:1،ص:353،ط:رشيدية)

الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ میں ہے:

"وأما السكران، فإن كان غير متعد بسكره، كما إذا سكر مضطرا، أو مكرها أو بقصد العلاج الضروري إذا تعين بقول طبيب مسلم ثقة، أو لم يعلم أنه مسكر، لم يقع طلاقه بالاتفاق، لفقدان العقل لديه كالمجنون دون تعد، هذا إذا غاب عقله أو اختلت تصرفاته، وإلا وقع طلاقه."

(حرف الطاء،29 ،16 ،ط:دارالسلاسل)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144512101477

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں