میں ایک کمپنی میں جاب کرتا ہوں، جومیری ذمہ داری ہے وہ میں مکمل کرتا ہوں، اور کمپنی والے کبھی مجھ سے کہتے ہیں کہ یہ چیز ہمارے لیے لےآؤ، حالانکہ یہ چیز لانا میری ذمہ داری نہیں ہے ۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا میں کسی اور سے یہ کام کروا کر اس کے ساتھ منافع میں شریک ہو سکتا ہوں؟ کیا یہ چیز میں کسی دکاندار سے لوں اور دکان دار کے ساتھ اس کے منافع میں شریک ہو سکتاہوں؟یا منافع میں شریک نہ ہو کر اس دکان دار سےخریداری کا کمیشن لے سکتا ہوں؟
اگر یہ سب ناجائز ہے توکیا اس کا کوئی جائز طریقہ ہو سکتاہے؟
واضح رہے کہ اگر کوئی شخص کسی کو کسی چیز کے فروخت کرنے یا خریدنے کا وکیل بنائے تو اگر وکیل نے پہلے سے اس چیز کو فروخت کرنے کی اجرت مقرر نہ کی ہو اور نہ ہی وہ وکیل اجرت لے کر کام کرنے میں معروف ہو ( یعنی مؤکل کو یہ معلوم نہ ہو کہ یہ اجرت لے کر فروخت کرتا ہے) تو ایسی صورت میں وکیل کا مؤکل کو بتائے بغیر اپنا کمیشن لینا جائز نہیں ہوگا۔
لہذا صورت ِ مسئولہ میں اگر مارکیٹ سے کسی چیز کا خرید کر لانا سائل کی ذمہ داری میں شامل نہیں، لیکن سائل نے کمپنی سے کسی قسم کے کمیشن کی بات نہیں ، نہ کمیشن متعین کیا ہے نہ ہی سائل اس طرح کے کاموں میں اجرت لے کر کام کرنے میں معروف ہے ، تو سائل کی حیثیت وکیل کی ہے ، اور اس طرح خفیہ کمیشن یا دکاندار کے ساتھ مل کر اپنے لیے نفع رکھنا جائز نہیں ہے ۔
البتہ اگر سائل کمپنی کو بتادے کہ وہ اپنی ذمہ داری کے علاوہ مارکیٹ سے اشیاء خرید کر لانے کی صورت میں اتنی اجرت لے گا، یا اتنا کمیشن لے گا تو اس صورت میں مقرر کردہ اجرت یا کمیشن کا لینا جائز ہوگا۔
شرح المجلۃ میں ہے:
"(المال الذي قبضه الوكيل بالبيع والشراء وإيفاء الدين واستيفائه وقبض العين من جهة الوكالة في حكم الوديعة في يده فإذا تلف بلا تعد ولا تقصير لا يلزم الضمان. والمال الذي في يد الرسول من جهة الرسالة أيضا في حكم الوديعة) . ضابط: الوكيل أمين على المال الذي في يده كالمستودع."
(كتاب الوكالة،الباب الثالث في بيان احكام الوكالة ، المادة 1463، ج:3، ص:561، ط:دارالجيل)
درر الحکام فی شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:
"(إذا شرطت الأجرة في الوكالة وأوفاها الوكيل استحق الأجرة، وإن لم تشترط ولم يكن الوكيل ممن يخدم بالأجرة كان متبرعاً. فليس له أن يطالب بالأجرة) يستحق في الإجارة الصحيحة الأجرة المسمى. وفي الفاسدة أجر المثل ...لكن إذا لم يشترط في الوكالة أجرة ولم يكن الوكيل ممن يخدم بالأجرة كان متبرعا، وليس له أن يطلب أجرة. أما إذا كان ممن يخدم بالأجرة يأخذ أجر المثل ولو لم تشترط له أجرة ."
(الکتاب الحادی عشر الوکالة، الباب الثالث،الفصل االاول، ،ج:3،ص :573،ط:دارالجیل)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144610100990
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن