بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

2 ذو القعدة 1446ھ 30 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

کارِ خیر میں مال صرف کرنے کی وصیت کرنا


سوال

میری عمر تقریبا 70 سال ہے، میری بیوی کی عمر 62 سال ہے،میری شادی کو تقریباً 37 سال ہو گئے ہیں، جو کہ کامیابی سے گزر رہے ہیں،میں چوں کہ مقروض تھا،اس لیے میں نے 2019 میں  اپنا کاروبار فروخت کر کے اپنا قرض ادا کیا کر دیا ہے،اور میں نے اپنے تجربے کی بنیاد پر عبدالرزاق کے کارخانہ میں 70ہزاررو پے میں ملازمت اختیار کی تاکہ میں اپنے اخراجات پورے کر سکوں،چونکہ میں شوگر،بلڈپریشر،اور تین سال پہلے فالج کا اٹیک ہوا ہے،جس میں مجھے اللہ نے کسی کا محتاج نہیں کیا،اور میری کوئی اولاد بھی نہیں ہے، میں نے  50 گز کاایک فلیٹ جو کہ الواسع کورنگی کراسنگ پر واقع تھا وہ 2024 میں فروخت کر کےمیں نے اور میری بیوی نے حج ادا کیا،میرے بہن بھائی کسی بھی اعتبار کے قابل نہیں،اور انتہائی بدتمیز ہیں،میں اپنے بھائیوں کو ذمہ دار نہیں سمجھتا ہوں۔لہذاکیا میں اپنی موت کی صورت میں اپنے مال کی کسی مدرسہ اور مسجد یا کنویں یا صدقہ کی وصیت کر سکتا ہوں؟ رہنمائی فرمائیں۔

جواب

صورتِ مسئولہ  میں اگر سائل   کسی کارخیر میں اپنے مال کے صرف کرنے کی وصیت کرنا چاہتا ہےتو سائل کو اس کی اجازت ہے، اس کی یہ وصیت  انتقال کے بعد سائل کے کل مال کے ایک تہائی حصے میں معتبر ہوگی، یعنی کل مال میں سے تجہیز و تکفین کے اخراجات نکالنے اور لوگوں کے واجب الادا  قرضوں کی ادائیگی کے بعد بقیہ مال کے ایک تہائی حصے میں سے یہ وصیت پوری کی جائے گی، باقی دو تہائی مال ورثاءمیں وراثت کے ضابطہ شرعی کے موافق تقسیم ہو گا،تاہم مذکورہ صورتِ حال میں اگر سائل  اپنی زندگی میں صحت کی حالت میں  اپنی ضرورت کے بقدر اموال اپنے پاس رکھ کر بقیہ مال راہِ خدا میں خرچ کر دے تو اس کی بھی اجازت ہے، بشرطیکہ وارثوں کو محروم کرنے کی نیت نہ ہو۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"ثم تصح الوصية لأجنبي من غير إجازة الورثة، كذا في التبيين ‌ولا ‌تجوز ‌بما ‌زاد ‌على ‌الثلث ‌إلا ‌أن ‌يجيزه ‌الورثة بعد موته وهم كبار ولا معتبر بإجازتهم في حال حياته، كذا في الهداية."

(كتاب الوصايا، الباب الأول، ج:6، ص:90، ط: دار الفكر)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"و إذا وقف على أعمال البر فقال: فيها يشترى حباب يصب فيها الماء أو يجهز بها الأرامل و اليتامى أو يشترى بها أكسية للفقراء أو يتصدق بها كل سنة مكان ذنوبي التي فرطت فيها فهو جائز إذا جعل آخره ما لايتأبد للفقراء و إن وقف أرضًا على أن يحج عنه كل سنة بخمسة آلاف دراهم حجة و مبلغ نفقة الحج للراكب ألف درهم صرف ألف درهم إلى الحج و الباقي إلى المساكين، كذا في الحاوي. و إذا قال: أرضي هذه صدقة موقوفة على الجهاد و العراة و في أكفان الموتى أو في حفر القبور أو غير ذلك مما يشبهها فذلك جائز، كذا في الذخيرة."

(كتاب الوقف،الباب الثالث في المصارف،الفصل الأول فيما يكون مصرفا للوقف ومن لا يكون،ج:2،ص:369،ط:دار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144605101211

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں