اگر کوئی حافظ قرآن یا غیر حافظِ قرآن مسجد میں بیٹھ کر موبائل میں قرآنِ کی تلاوت کر رہا ہو اور ان کے سامنے الماری میں قرآن مجید موجود ہو تو ایسی صورت میں موبائل سے دیکھ کر تلاوت کرنا بہتر ہے یا قرآنِ پاک کے نسخے میں دیکھ کر تلاوت کرنا بہتر ہے؟
موبائل میں قرآنِ کریم کی تلاوت کرنا جائز ہے، البتہ موبائل کی اسکرین پر قرآنِ کریم کھلا ہوا ہو تو اس (اسکرین) کو وضو کے بغیر نہ چھوا جائے ، اس کے علاوہ موبائل کے دیگر حصوں کو مختلف اطراف سے وضو کے بغیر چھونے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔
باقی قرآنِ مجید مصحف میں دیکھ کر پڑھنا افضل ہے، اس لیے مصحف کو دیکھنا، اس کو چھونا اور اس کو اٹھانا یہ اس کا احترام ہے، اور اس میں معانی میں زیادہ تدبر کا موقع ملتا ہے، اور یہ سب ثواب کا ذریعہ ہے، ظاہر ہے کہ یہ سب باتیں موبائل میں مکمل حاصل نہیں ہوتیں، اس لیے جہاں تک ہوسکے مصحف ہی سے پڑھا جائے، اگر کبھی ضرورت ہو تو موبائل سے پڑھ لیں، ورنہ عام حالات خصوصاً مسجد میں جہاں سہولت سے قرآن میسر بھی ہیں وہاں موبائل کے بجائے مصحف سے قرآنِ مجید پڑھنے کا اہتمام کرنا چاہیے۔
فتاویٰ شامی میں ہے:
"(و) يحرم (به) أي بالأكبر (وبالأصغر) مس مصحف: أي ما فيه آية كدرهم وجدار، وهل مس نحو التوراة كذلك؟ ظاهر كلامهم لا (إلا بغلاف متجاف) غير مشرزأو بصرة به يفتى.
(قوله: أي ما فيه آية إلخ) أي المراد مطلق ما كتب فيه قرآن مجازا، من إطلاق اسم الكل على الجزء، أو من باب الإطلاق والتقييد. قال ح: لكن لا يحرم في غير المصحف إلا بالمكتوب: أي موضع الكتابة كذا في باب الحيض من البحر، وقيد بالآية؛ لأنه لو كتب ما دونها لا يكره مسه كما في حيض القهستاني. وينبغي أن يجري هنا ما جرى في قراءة ما دون آية من الخلاف، والتفصيل المارين هناك بالأولى؛ لأن المس يحرم بالحدث ولو أصغر، بخلاف القراءة فكانت دونه تأمل."
(کتاب الطھارۃ،1/ 173، ط:سعید)
فتاوی شامی میں ہے:
"(قوله ومسه) أي القرآن ولو في لوح أو درهم أو حائط، لكن لا يمنع إلا من مس المكتوب، بخلاف المصحف فلا يجوز مس الجلد وموضع البياض منه."
(كتاب الطهارة، باب الحيض،1/ 293، ط: سعيد)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144602100009
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن