بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1446ھ 19 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

موبائل وغیرہ پر گیم کھیلنے اور گیم سے حاصل شدہ کوائن بیچنے کا حکم


سوال

 ایک کمپنی ہے جس کے تحت ایک لڑنے والی گیم ہے، گیم کی وضاحت یہ ہے کہ اس کے اندر سپاہیوں نے جا کے ایک بلا کو مارنا ہوتا ہے تو اس کے بدلے میں  کوائن ملتے ہیں ۔ان کوائن کو آگے بیچ کے ان کے بدلے میں پیسے لینا صحیح ہے یا نہیں؟ اور اس میں کسی قسم کا کوئی دھوکا بھی نہیں ہے، انویسٹ بھی شروع میں کرنا پڑتا ہے اور انویسٹ سے مراد شروع میں اس گیم کو کھیلنے کیلئے سوفٹ ویئر اور اکاؤنٹ خریدنا پڑتا ہے اور کمپنی کا وجود بھی ہےاور اس میں جوا بھی نہیں ہے اور یہ گیم پب جی(PUBG) کی طرح بھی نہیں ہے اور اس کوائن کا آگے کاروبار بھی ہوتا ہے جو ہم بیچتے ہیں ۔ 

جواب

یہاں  دو باتیں غور طلب ہیں: ایک یہ کہ گیم سے حاصل ہونے والی کوائن کی خرید و فروخت کا شرعاً   کیا حکم ہے؟ اور دوسرا یہ کہ ان کوائن کی خرید و فروخت سے قطع نظر اس طرح کے گیموں کا کھیلنا کیسا ہے؟ اور یہ جوا ہے یا نہیں ؟

جہاں تک کوائن کی خرید و فروخت کا معاملہ ہے تو اس کی تفصیل یہ ہے کہ آج کل موبائل فون پر مختلف ناموں سے آن لائن گیم موجود ہیں، ان گیمز کے مختلف مراحل کو پاس کرنے کی صورت میں کچھ فرضی کوائن ملتے ہیں اور ان کوائن کے ذریعہ گیم کے اگلے مراحل کو کھیلا جاسکتا ہے، بہت سے لوگ اس طرح کے گیم کھیل کر کوائن جمع کرتے رہتے ہیں اور پھر دیگر لوگوں کو یہ کوائن پیسوں کے بدلہ بیچ دیتے ہیں اور کوائن خریدنے والے لوگ پھر ان کوائن سے یہ گیم کھیلتے ہیں اور ختم ہوجانے کی صورت میں مزید کوائن خرید لیتے ہیں، اور یوں یہ خرید و فروخت کا سلسلہ چلتا رہتا ہے، لیکن یہ بات جاننا ضروری ہے کہ خرید و فروخت  کے شرعی طور پر جائز ہونے کی بنیادی شرطوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ  مبیع (جس  چیز کو بیچا جارہا ہے) اور ثمن( جس کے ذریعے  کسی چیز کو خریدا جارہا ہے)   خارج میں مادی شکل میں  موجود ہوں، اور وہ مالِ متقوم ہوں، محض فرضی چیز نہ ہوں، لہذا جس چیز کا خارج میں وجود نہ ہو اور نہ ہی اس کے پیچھے کوئی جامد اثاثے ہوں  تو شرعاً ایسی  چیزوں کی خرید وفروخت جائز نہیں ہے۔لہذا گیم کے کوائن  چوں کہ صرف ایک فرضی چیز ہیں، خارج میں ان کا کوئی وجود نہیں ، اس لیے اس میں مبیع بننے کی صلاحیت نہیں،  نیز گیم  کے کوائن  کو معتدبہ تعداد تک پہنچا کر فروخت  کرنے کے لیے کافی عرصہ لگتا ہے، اور یہ لہو ولعب میں لگ کر وقت اور مال دونوں کا ضیاع ہے، اور اگر گیم میں جان دار کی تصاویر ہوں تو یہ ایک اور شرعی قباحت ہے، اس لیے گیم  کے کوائن کی  خرید وفروخت اور اس کے ذریعے حاصل ہونے والی کمائی  شرعاً جائز  نہیں ہے۔

دوسری بات کہ اس طرح کے گیموں کا کھیلنا کیسا ہے؟ اور یہ جوا ہے یا نہیں ؟

  اس طرح کی گیمز میں اگر خارج میں پیسوں کا لین دین نہ ہو  تب بھی اگر اس میں دو یا زیادہ افراد اپنے پاس موجود کوائن لگاکر کھیلیں تو اس میں جوئے  کی مشابہت پائی جاتی ہے، اس لیے اس سے اجتناب کرنا ضروری ہے، باقی   کسی بھی قسم کا کھیل جائز ہونے کے لیے مندرجہ ذیل شرائط کا پایا جانا ضروری ہے، ورنہ وہ کھیل لہو ولعب میں داخل ہونے کی وجہ سے شرعاً ناجائز ہوگا:

1۔۔  وہ کھیل بذاتِ خود جائز ہو، اس میں کوئی ناجائزبات نہ ہو۔

2۔۔  اس کھیل میں کوئی دینی یا دنیوی منفعت  ہو، مثلاً جسمانی  ورزش وغیرہ ، محض لہو لعب یا وقت گزاری کے لیے نہ کھیلا جائے۔

3۔۔  کھیل میں غیر شرعی امور کا ارتکاب نہ کیا جاتا  ہو، مثلاً جوا وغیرہ،اور نہ ہی اس میں جاندار اشیاء کی تصاویر پائی جائیں۔

4۔۔ کھیل میں اتنا غلو نہ کیا جائے  کہ شرعی فرائض میں کوتاہی یا غفلت پیدا ہو۔

         حاصل یہ ہے کہ اگر گیم میں   مذکورہ خرابیاں پائی جائیں  یعنی اس میں غیر شرعی امور کا ارتکاب کیا جاتا ہو، مثلاً جان دار کی تصاویر، موسیقی اور جوا وغیرہ  ہوں، یا مشغول ہوکر  شرعی فرائض اور واجبات میں کوتاہی  اور غفلت برتی جاتی ہو، یا اسے محض  لہو لعب کے لیے کھیلا جاتا ہو (جیساکہ عموماً ہوتاہے) تو اس طرح  کا گیم کھیلنا جائز نہیں ہوگا۔اور اگر یہ خرابیاں نہ ہوں ( جو کہ تقریباً نا ممکن ہے) تو بھی موبائل پر گیم کھیلنے میں نہ جسمانی ورزش ہے، نہ دینی یا بامقصد دنیوی فائدہ ہے، اس لیے بہرصورت اس سے اجتناب کرنا لازم ہے،اور جو پیسے گیم سے حاصل شدہ کوائن کو بیچنے سے ملے ہیں، اسےثواب کی نیت   کےبغیر مستحق زکات پر صدقہ کردینا لازم ہے۔

قرآن ِ کریم میں ہے:

"{وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّخِذَهَا هُزُوًا أُولَئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُهِينٌ }." [لقمان:6]

       روح المعانی میں ہے:

"ولهو الحديث على ما روي عن الحسن: كل ما شغلك عن عبادة الله تعالى وذكره من السمر والأضاحيك والخرافات والغناء ونحوها". 

(تفسیر آلوسیؒ، سورۃ لقمان،ج:11، ص: 66،ط:دار الکتب العلمیة)

فتاوی شامی میں ہے:

"(و) كره (كل لهو) لقوله - عليه الصلاة والسلام - كل لهو المسلم حرام إلا ثلاثة ملاعبته أهله وتأديبه لفرسه ومناضلته بقوسه ."

 (كتاب الحظر والاباحة،6/ 395، ط: سعید)

تکملة فتح الملهم  میں ہے:

"فالضابط في هذا . . . أن اللهو المجرد الذي لا طائل تحته، وليس له غرض صحيح  مفيد في المعاش ولا المعاد حرام أو مكروه تحريماً، . . . وما كان فيه غرض  ومصلحة دينية أو دنيوية، فإن ورد النهي  عنه من الكتاب أو السنة . . . كان حراماً أو مكروهاً تحريماً، ... وأما مالم يرد فيه النهي عن الشارع وفيه فائدة ومصلحة للناس، فهو بالنظر الفقهي علي نوعين ، الأول ما شهدت التجربة بأن ضرره أعظم من نفعه ومفاسده أغلب علي منافعه، وأنه من اشتغل به الهاه عن ذكر الله  وحده وعن الصلاة والمساجد التحق ذلك بالمنهي عنه لاشتراك العلة فكان حراماً أو مكروهاً، والثاني ماليس كذالك  فهو أيضاً إن اشتغل به بنية التلهي والتلاعب فهو مكروه، وإن اشتغل به لتحصيل تلك المنفعة وبنية استجلاب المصلحة فهو مباح،  بل قد ير تقي إلى درجة الاستحباب أو أعظم منه . . . وعلي هذا الأصل فالألعاب التي يقصد بها رياضة الأبدان أو الأذهان جائزة في نفسها مالم يشتمل علي معصية أخري، وما لم يؤد الانهماك فيها إلى الاخلال بواجب الإنسان في دينه و دنياه. "

 (تکملة فتح الملهم، قبیل کتاب الرؤیا،4/ 435، ط:دارالعلوم کراچی)

البحر الرائق میں ہے :

"وظاهر كلام النووي في شرح مسلم الإجماع على تحريم تصويره صورة الحيوان وأنه قال: قال أصحابنا وغيرهم من العلماء: ‌تصوير ‌صور ‌الحيوان حرام شديد التحريم وهو من الكبائر لأنه متوعد عليه بهذا الوعيد الشديد المذكور في الأحاديث يعني مثل ما في الصحيحين عنه - صلى الله عليه وسلم - «أشد الناس عذابا يوم القيامة المصورون يقال لهم أحيوا ما خلقتم» ثم قال وسواء صنعه لما يمتهن أو لغيره فصنعته حرام على كل حال لأن فيه مضاهاة لخلق الله تعالى وسواء كان في ثوب أو بساط أو درهم ودينار وفلس وإناء وحائط وغيرها اهـ. فينبغي أن يكون حراما لا مكروها إن ثبت الإجماع أو قطعية الدليل لتواتره."

(باب ما يفسد الصلاة وما يكره فيها، 2/ 29،دارالکتاب الاسلامی)

فتاوی شامی میں ہے:

"ويردونها على أربابها إن عرفوهم، وإلا تصدقوا بها؛ لأن سبيل الكسب الخبيث التصدق إذا تعذر الرد على صاحبه."

(كتاب الحظر والاباحة،6/ 385، ط:سعيد)

معارف السنن میں ہے:

"قال شیخنا: ویستفاد من کتب فقهائنا کالهدایة وغیرها: أن من ملك بملك خبیث، ولم یمكنه الرد إلى المالك، فسبیله التصدقُ علی الفقراء ... قال: و الظاهر أن المتصدق بمثله ینبغي أن ینوي به فراغ ذمته، ولایرجو به المثوبة."

(أبواب الطهارة، باب ما جاء: لاتقبل صلاة بغیر طهور، 1/ 34، ط: المکتبة الأشرفیة)

جواہر الفتاوی میں ہے:

"جو مالِ حرام کسی خدمت یا کسی چیز کے بدلہ میں حاصل کیا گیا ہے اس کا حکم یہ ہے کہ اس قسم کے مالِ حرام، حرام کمائی کمانے والے کے لیے حلال نہیں ہےبلکہ یہ ملکِ خبیث ناجائز آمدنی ہونے کی بناء پر واجب التصدق ہے کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی آمدنی کو جو حرام قرار دیا ہے ایسے مال کا خبث کسبِ خبیث اور ناجائز ذرائع آمدنی کی وجہ سے ہے،دوسرے آدمی کے حق کے متعلق  ہونے کی بناء پر نہیں ہے۔ لہذا ایسے مال کے خبث اور حرمت سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی سب سے پہلا کام یہ کرے کہ ان ناجائز ذرائع آمدنی کو ترک کر دے اور اللہ تعالی سے معافی مانگے ، توبہ واستغفار کرے ۔دوسرا کام یہ کرے کہ ناجائز اور حرام مال کو بلا نیت ثواب فقراء میں صدقہ کر کے اپنے آپ کو فارغ کرے ، حلال اور جائزآمدنی کا انتظام کرے اور حلال روزی اور کمائی پر اکتفاء کرے،خواہ اس کی مقدار کم ہو ۔۔۔الخ۔"

( ج: 3، ص: 87، 88، ط: اسلامی کتب خانہ )

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144503101164

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں