بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1446ھ 18 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

ملازم کی بینک میں جمع شدہ رقم کی زکوٰۃ کا حکم۔


سوال

 ایک اسکول ٹیچر جو ہرمہینہ  ایک لاکھ سے زیادہ  تنخواہ لیتا ہے ، وہ ہر مہینے بینک سے پیسے نہیں نکالتا، بلکہ  جمع کرتا رہتا ہےاور جمع بھی اسی لیے کرتا ہے کہ کہیں زمین ملے تو اپنی اولاد کے لیے زمین خرید لے ، تو بوقتِ ضرورت وہ تین  چار ماہ بعد کچھ رقم نکال لیتا ہےاور کچھ رقم بینک میں ہی رہنے دیتاہے ، جو رقم  نکالتاہے وہ اپنی ضروریات پر خرچ کر دیتا ہے ، اسی طرح پھر اگلے 5 ماہ کےبعد وہ  رقم اپنی ضروریات کے مطابق نکال لیتا ہے اور خرچ کرتا ہے ۔اس طرح کرتے ہوئےایک یا دو سال ہو گئےہیں ،تو کیا بقیہ رقم جو بینک میں موجود ہے اس پر زکوٰۃ واجب ہےیا نہیں؟ بالفرض ایک یا دو سال کی کل آمدنی 20 سے 25 لاکھ ہے اور کچھ رقم نکال چکا ہےتوبقیہ15 لاکھ رہ گیا ہےتو کیا اس رقم پر زکوٰۃ واجب ہےیا نہیں ہے. اس بارے میں تفصیلی وضاحت فرمائیں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ شخص کے بینک اکاونٹ میں موجودہ رقم چوں کہ ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت سے زائد ہے ،لہذا وہ صاحب نصاب شمار ہوگا، زکوٰۃ کاقمری  سال مکمل ہونے پر کل جمع پونجی کا ڈھائی فیصد بطور زکوٰۃ  ادا  کرنا لازم ہے، نیز  مذکورہ شخص  سال کے دوران جتنی رقم استعمال کرلیتاہے،اس استعمال شدہ رقم پر زکوٰۃ لازم نہیں ہوگی ۔

البحرالرئق میں ہے :

"(باب زكاة المال) ما تقدم أيضا زكاة مال؛ لأن المال كما روي عن محمد كل ما يتملكه الناس من نقد وعروض وحيوان وغير ذلك إلا أن في عرفنا يتبادر من اسم المال النقد والعروض وقدم الفضة على الذهب في بعض المصنفات اقتداء بكتب رسول الله صلى الله عليه وسلم (قوله يجب في مائتي درهم وعشرين مثقالا ربع العشر) ، وهو خمسة دراهم في المائتين، ونصف مثقال في العشرين."

(کتاب الزکوٰۃ، ج: 2، ص:  242، ط: دار الکتاب الإسلامي)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144609101119

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں