ہمارے والد صاحب ایک سال پہلے انتقال کرچکے ہیں، جب کہ والدہ محترمہ ابھی حیات ہیں، ہم کل دو بھائی اور تین بہنیں تھیں، جن میں سے ایک بھائی شہید ہوچکے ہیں، ان کی شہادت کو اب تقریباً چودہ سال ہوگئے ہیں، اور دوسرا بھائی جو کہ حیات ہے، وہ بڑے بھائی کی شہادت کے ڈیڑھ ماہ بعد اپنی مرضی سے شادی کرکے گھر سے الگ ہوگیا، اس بھائی کی بیوی جہیز میں کچھ بھی نہیں لائی تھی، بلکہ سب کچھ والدہ نے بندوبست کرکے دیا تھا، اور یہ بھائی ہر ماہ آکر والدہ سے مکان کے کرائے کےلیے 10,000 روپے لےکر جاتا ہے، اس نے والدین کی کفالت کےلیے کبھی کوئی خرچہ نہیں دیا۔ والدہ کا ایک ذاتی مکان ہے جو کہ والدہ کو نانی نے گفٹ کیا تھا اور والدہ نے بہت محنت کرکے وہ مکان بنایا تھا، اس مکان میں والد مرحوم کا کسی قسم کا کوئی حصّہ نہیں تھا، اب بھائی اس مکان میں سے حصّہ کا مطالبہ کر رہاہے۔ والدہ چاہتی ہیں کہ تین بیٹیاں، ایک بیٹا اور ایک وہ خود، ان سب کے درمیان برابر سرابر حصّہ کردیں، اس کے علاوہ ایک حصّہ شہید بھائی کا بھی نکال کے وہ حصّہ مسجد کے نام کرنا چاہتی ہیں، جب کہ بھائی یہ سب نہیں چاہتا، بلکہ وہ دُگنا حصّہ مانگ رہا ہے، مگر والدہ کہہ رہی ہیں کہ میں ایک حصّہ اس بیٹے کی شادی پر لگا چکی ہوں اور اب سب میں برابر کا حصّہ دینا چاہتی ہوں۔ تینوں بیٹیاں شادی شدہ ہیں اور والدہ کے ساتھ ہیں، اور یہ بیٹیاں بچپن سے ہی والدہ کے ساتھ محنت کرتی رہی، والدہ نے اپنی مرضی سے دو بیٹیوں کے حالات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے انہیں اپنے ساتھ رکھا ہوا ہے، جو کہ والدہ کی خدمت گزار ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ شریعت کی رو سے والدہ، ایک بیٹا اور تین بیٹیوں کا کتنا کتنا حصّہ بنے گا؟ اور اس تقسیم کا کیا طریقہ ہوگا؟
واضح رہے کہ آدمی اپنی زندگی میں اپنی تمام تر جائیداد کا خود مُختار مالک ہوتا ہے، شرعًا اسے اس میں ہر قسم کی جائز تصرفات کا حق حاصل ہوتا ہے، کسی دوسرے (بیٹا یا بیٹی) کا اس میں کوئی حق یا حصّہ نہیں ہوتا، لہٰذا اولاد کا والد کی زندگی میں ہی اپنے حصّے کا مطالبہ کرنا یا انہیں حصّہ دینے پر مجبور کرنا شرعًا درست نہیں ہے، اسی طرح والد اس کے اس مطالبہ پر اسے حصّہ دینے کا پابند بھی نہیں ہے، تاہم اگر کوئی شخص زندگی میں ہی اپنی خوشی ورضامندی سے اپنی جائیداد اولاد کے درمیان تقسیم کرنا چاہے تو کرسکتا ہے، اپنی زندگی میں جو جائیداد تقسیم کی جائے وہ ہبہ (گفٹ) کہلاتی ہے، اور اولاد کے درمیان ہبہ (گفٹ) کرنے میں برابری ضروری ہوتی ہے۔
لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اگر آپ کی والدہ اپنی جائیداد اپنی اولاد کے درمیان تقسیم کرنا چاہتی ہے تو اس کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ والدہ اپنی جائیداد یا نقدی میں سے اپنے لیے جتنا چاہے رکھ لے، تاکہ بوقتِ ضرورت کام آئے اور کسی کا محتاج نہ ہونا پڑے، اور شہید بیٹے کے ایصالِ ثواب کےلیے جائیداد کے ایک تہائی حصّے میں سے جس کارِ خیر میں چاہے دےدے، اس کے بعد باقی جائیداد اپنی تمام اولاد میں برابر تقسیم کردے، یعنی جتنا حصّہ بیٹے کو دے اتنا ہی بیٹی کو بھی دے، نہ کسی کو محروم کرے اور نہ ہی بلاوجہ کمی بیشی کرے، ورنہ گناہ ہوگا اور اس صورت میں ایسی تقسیم شرعًا غیر منصفانہ کہلائے گی۔
البتہ اولاد میں سے اگر کسی ایک کو کسی معقول وجہ کی بنا پر دوسروں کی بہ نسبت کچھ زیادہ دینا چاہے تو دےسکتی ہے، یعنی کسی کی شرافت ودین داری یا غریب ہونے یا خدمت گزار ہونے کی بنا پر اس کو دوسروں کی بہ نسبت کچھ زیادہ دے تو اس کی اجازت ہے، بشرطیکہ اس سے دیگر اولاد کو محروم کرنا یا انہیں نقصان پہنچانا مقصود نہ ہو۔
یاد رہے کہ اس تقسیم (ہبہ) کے مکمل ہونے کےلیے ضروری ہے کہ ہر ایک کا حصّہ باقاعدہ قبضہ اور تمام مالکانہ حقوق کے ساتھ اس کے حوالہ کردیا جائے، ورنہ یہ تقسیم کار آمد نہیں ہوگی۔
حاصل یہ ہے کہ بیٹے کا والدہ کو اپنا مکان تقسیم کرنے پر مجبور کرنا شرعًا درست نہیں ہے، اگر والدہ اپنا مکان تقسیم نہ کرے تو اسے اس کا پورا پورا حق حاصل ہے، تاہم اگر تقسیم کرے تو پھر بیٹا اور بیٹی کو برابر برابر حصّہ دے، بیٹے کا دگنے حصّے کا مطالبہ درست نہیں۔
حدیث شریف میں ہے:
"وعن النعمان بن بشير أن أباه أتى به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إني نحلت ابني هذا غلاما فقال: «أكل ولدك نحلت مثله؟» قال: لا، قال: «فأرجعه». وفي رواية: أنه قال: «أيسرك أن يكونوا إليك في البر سواء؟» قال: بلى قال: «فلا إذن». وفي رواية: أنه قال: أعطاني أبي عطية فقالت عمرة بنت رواحة: لا أرضى حتى تشهد رسول الله صلى الله عليه وسلم فأتى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إني أعطيت ابني من عمرة بنت رواحة عطية فأمرتني أن أشهدك يا رسول الله قال: «أعطيت سائر ولدك مثل هذا؟» قال: لا قال: «فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم». قال: فرجع فرد عطيته. وفي رواية: أنه قال: «لا أشهد على جور»."
(مشکاة المصابیح، كتاب البيوع، باب العطایا، ج:2، ص:909، رقم الحديث:3019، ط:المكتب الإسلامي بيروت)
ترجمہ: ”حضرت نعمان ابن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (ایک دن ) ان کے والد (حضرت بشیر رضی اللہ عنہ) انہیں رسول کریمﷺ کی خدمت میں لائے اور عرض کیا کہ میں نے اپنے اس بیٹے کو ایک غلام ہدیہ کیا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : کیا آپ نے اپنے سب بیٹوں کو اسی طرح ایک ایک غلام دیا ہے؟، انہوں نے کہا : ”نہیں“، آپ ﷺ نے فرمایا: تو پھر (نعمان سے بھی ) اس غلام کو واپس لے لو۔ ایک روایت میں یوں ہے کہ آپﷺ نے فرمایا کہ کیا تم یہ پسند کرتے ہو کہ تمہارے سب بیٹے تمہاری نظر میں نیکی کے اعتبار سے یکساں ہوں، (یعنی کیا تم یہ چاہتے ہو کہ تمہارے سب بیٹے تمہارے ساتھ اچھا سلوک کریں، اور سب ہی تمہاری فرمانبرداری اور تعظیم کریں؟) انہوں نے کہا کہ ہاں! تو آپﷺ نے فرمایا کہ پھر اپنے ایک بیٹے (نعمان) کو غلام نہ دو، ایک اور روایت میں آتا ہے کہ …… آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالی سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان انصاف کرو۔“
(مظاہرِ حق، ج:3، ص:193، ط:دارالاشاعت کراچی)
فتاویٰ شامی میں ہے:
"أقول: حاصل ما ذكره في الرسالة المذكورة أنه ورد في الحديث أنه صلى الله عليه وسلم قال «سووا بين أولادكم في العطية ولو كنت مؤثرا أحدا لآثرت النساء على الرجال» رواه سعيد في سننه وفي صحيح مسلم من حديث النعمان بن بشير «اتقوا الله واعدلوا في أولادكم» فالعدل من حقوق الأولاد في العطايا والوقف عطية فيسوي بين الذكر والأنثى، لأنهم فسروا العدل في الأولاد بالتسوية في العطايا حال الحياة. وفي الخانية ولو وهب شيئا لأولاده في الصحة، وأراد تفضيل البعض على البعض روي عن أبي حنيفة لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل في الدين وإن كانوا سواء يكره وروى المعلى عن أبي يوسف أنه لا بأس به إذا لم يقصد الإضرار وإلا سوى بينهم وعليه الفتوى وقال محمد: ويعطي للذكر ضعف الأنثى."
(كتاب الوقف، مطلب في المصادقة على النظر، ج:4، ص:444، ط:ايج ايم سعيد)
درر الحكام فی شرح مجلۃ الأحكام میں ہے:
"كل يتصرف في ملكه المستقل كيفما شاء أي أنه يتصرف كما يريد باختياره أي لا يجوز منعه من التصرف من قبل أي أحد هذا إذا لم يكن في ذلك ضرر فاحش للغير."
(الكتاب العاشر الشركات، الباب الثالث، الفصل الأول في بيان بعض القواعد المتعلقة بأحكام الأملاك،ج:3، ص:201، ط:دار الجیل بیروت)
فتاویٰ عالمگیری میں ہے:
"ومنها أن يكون الموهوب مقبوضا حتى لا يثبت الملك للموهوب له قبل القبض وأن يكون الموهوب مقسوما إذا كان مما يحتمل القسمة وأن يكون الموهوب متميزا عن غير الموهوب ولا يكون متصلا ولا مشغولا بغير الموهوب."
(كتاب الهبة، الباب الأول، ج:4، ص:374، ط:المكتبة الرشيدية كوئته)
فقط و الله أعلم
فتوی نمبر : 144603102926
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن