زید نے چار لوگوں کے ایک لاکھ روپے دبا لیے اور بھاگ گیا،(ان سے لیے تھے بزنس کرنے کے لیے لے کر فرار ہو گیا)،عمرو کے پاس زید کے 50 ہزار رکھے ہیں، کیا عمرو وہ پیسے ان چاروں کو یا چاروں میں سے کسی کو دے سکتا ہے، زید کی اجازت کے بغیر، جب کہ زید فی الحال عمرو سے رابطہ میں بھی نہیں ہے، اور وہ چار عمرو سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ پیسے ہمیں دے دو؟
صورت مسئولہ میں مسمی زید نے جن افراد کی رقم لے کر راہ فرار اختیار کی ہے،ان افراد کا عمر و(جن کے پاس زید کے پچاس ہزار روپے رکھے ہوئے ہیں)سے اپنی رقم کا مطالبہ کرنا درست نہیں،اور مسمی عمر و کےلیے زید کی اجازت کے بغیر مذکورہ رقم مذکورہ چار افراد یا ان میں سےکسی کو دینے کی شرعاًاجازت نہیں ہوگی۔
العقود الدریۃ فی تنقیح الفتاوی الحامدیۃ میں ہے:
"(سئل) فيما إذا كان لزيد بذمة عمرو مبلغ دراهم دين شرعي معلوم ولعمرو بذمة بكر دين أيضا يريد زيد أخذ دين عمرو من بكر بدون وكالة عن عمرو ولا وجه شرعي فهل ليس له ذلك؟
(الجواب) : نعم وفي الأقضية لو أقام البينة على مديون مديونه لا تقبل ولا يملك أخذ الدين منه خلاصة من الفصل الرابع في دعوى الدين ومثله في البزازية من الفصل المرقوم."
(کتاب الدعویٰ، ج:2، ص:26، ط:دار المعرفة بیروت)
فتاویٰ شامی میں ہے:
"(قوله؛ لأن النقدين جنس واحد حكما) ولهذا كان للقاضي أن يقضي بها دينه من غير رضا المطلوب بحر. قلت: وهذا موافق لما صرحوا به في الحجر. ومفاده أنه ليس للدائن أخذ الدراهم بدل الدنانير بلا إذن المديون ولا فعل حاكم، وقد صرح في شرح تلخيص الجامع في باب اليمين في المساومة بأن له الأخذ وكذا في حظر المجتبى، ولعله محمول على ما إذا لم يمكنه الرفع للحاكم، فإذا ظفر بمال مديونه له الأخذ ديانة بل له الأخذ من خلاف الجنس."
(كتاب السرقة، ج:4، ص:94، ط:ايج ايم سعيد)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144608102164
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن