بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

موکل کے ذریعے علاج کرنے اور اس پر وظیفہ لینے کا حکم


سوال

میرے رشتہ داروں میں ایک عورت ہے،وہ کہتی ہے کہ میرے ساتھ موکل (جن ) ہے،ایک موکل قاری ہے،ایک قار ی کی  بیوی ہے،ایک قاری کی بہن ہے،ایک قاری کا شاگرد ہے، لوگوں میں جو بیماریاں ہوتی ہے،اس کی تعیین کرتی ہے اور کہتی ہے کہ دم کرتے وقت آیت الکرسی اورسبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم پڑھتی ہوں، مرض کے چھوٹے اور  بڑے ہونے کے اعتبار سے 50/ 100/ 600/ 1000  وظیفہ بھی مقرر کیاہے اور یہ وظیفہ تب لیتی ہے،جب علاج کرنے کے بعدمرض ختم ہوجائے اور اس عورت کا کہنا یہ ہے کہ کئی دفعہ میں نے علاج کیا،ایکسرے کے بعد نتیجہ درست آیا،یہ لوگوں کے عیوب بھی بتاتی ہے کہ  یہ بیماری آپ پر اس لیے آئی کہ آپ نے فلاں کا م کیا،فلاں جگہ میں،میں نے چند سوالات کیے کہ جب اس کے پاس موکل حاضر ہوچکا،کہ آپ کی اصلیت کس چیز کی ہے ؟تو اس نے کہا کہ ہم جن میں سے ہے،لیکن ہمیں دوسرے جنات پر ایسی فضیلت ہے،جیسے اہل بیت کو فضیلت دی گئی ہے،میں نے پو چھاکہ آپ کی روزی کیا ہے؟ اس نے کہاکہ جنت سے ہمارے لیے پھل فروٹ آتے ہیں،اس نے کہا(جب اس کے پاس موکل حاضر تھا) کہ بنوری ٹاؤن میں یہ سوال جمع کراؤ  اور فتوی لے لو، اس میں جو حکم ہوگا اس پر عمل کریں گے۔

جواب

واضح رہے کہ جنات کا انسان مرد وعورت پر آنا گفتگو کرنااور اس قسم کی باتیں بتانابھی ممکن ہے، شرعی حدود میں رہتے ہوئے ان سے علاج کرانا بھی جائز ہوگا،باقی مذکور ہ خاتون کے ساتھ موکل ہے یانہیں؟ اور وہ ان کے ذریعے سے صحیح علاج کرتی ہے یانہیں؟ اس کے بارے میں تصدیق یا تردید نہیں کی جاسکتی،اس لیے صورت مسئولہ میں مذکورہ خاتون اگر دعوی کرتی ہو کہ وہ موکل کے ذریعے علاج کرتی ہے،تو اس کے ذریعے علاج کرنا اور اس پر معقول معاوضہ لینا ذیل کی چند شرائط کے ساتھ جائز ہے:

  1. جن چیزوں کو پڑھ کر دم کرے   ان کا معنی  ومفہوم معلوم ہو۔
  2. ان میں  کوئی شرکیہ کلمہ نہ ہو یعنی غیراللہ سے مدد طلب نہ کی گئی ہو۔
  3.   ان کے مؤثر بالذات ہونے   کا اعتقاد نہ ہو۔
  4. کسی بھی غیر شرعی امر کا ارتکاب نہ کرنا پڑے، مثلاً:  غیر محرم کےساتھ اختلاط و بے پردگی وغیرہ۔

البتہ چونکہ جنات علم غیب نہیں  جانتے ،عالم الغیب صرف اور صرف اللہ کی ذات ہے،اس لیے ان سے کسی غیب چیز کے بارے میں سوال کرناشرعاً ناجائز ہے اور ان کی باتوں پر یقین کرنا  شرع اور عقل دونوں کے خلاف اور ناجائزہے۔

عمدۃالقاری میں ہے:

"وذكر أبو الحسن الأشعري في (مقالات أهل السنة والجماعة) أنهم يقولون: ‌إن ‌الجن ‌يدخل في بدن المصروع كما قال لله عز وجل:{الذين يأكلون الربا ألا يقومون إلا كما يقوم الذي يتخبطه الشيطان من المس}(البقرة: 275) وقال عبد الله بن أحمد بن حنبل: قلت لأبي: إن قوما يقولون: إن الجن لا تدخل في بدن الإنس، فقال: يا بني! يكذبون، هو ذا يتكلم على لسانه."

(كتاب العدة، باب فضل من يصرع من الريح، ج: 21، ص: 214، ط:دارالفكر)

کتاب الروح لابن القیم میں ہے:

"تداخل الأجسام المحالَ أن يتداخل جسمان كثيفان أحدُهما في الآخر، بحيث يكون حيِّزُهما واحدًا. وأما أن يدخل جسمٌ لطيف في كثيف يسري فيه، فهذا ليس بمحال."

(المسئلة التاسعة عشر: ما حقيقة النفس؟ فصل الجواب عن أدلة المنازعين، الشبهة الثانية والعشرون، ج: 2، ص:611، ط: دار ابن حزم)

مرقاة المفاتيح میں ہے:

"وأصل ذلك أن الملائكة تسمع في السماء ما يقضي الله تعالى في كل يوم من الحوادث في الدنيا فيحدث بعضهم بعضا فيسترقه الشيطان، فيلقيه إلى الكهان، ويشهد له حديث أبي هريرة في أول الفصل الثالث، وما روى أبو داود عن ابن مسعود قال: إذا تكلم الله عز وجل بالوحي سمع أهل السماء صلصلة كجر السلسلة على الصفا، فيصعقون، فلا يزالون كذلك حتى يأتيهم جبريل، فإذا جاء جبريل فزع عن قلوبهم فيقولون: يا جبريل! ماذا قال ربكم؟ فيقول: الحق اهـ.»(فتذكر) أي: الملائكة (الأمر قضي) :........ ففيه دلالة صريحة على أن المراد بالعنان السحاب، إذ لا معنى لقوله: إن الملائكة تنزل من السماء فتذكر الأمر الذي قضي في السماء، بل المعنى أن الملائكة ينزلوا من السماء في السحاب، فيحكي بعضهم لبعض الأمور التي قضيت في السماء، وسمعوا حال كونهم فيها (فتسترق الشياطين السمع) أي: مسموع الملائكة (فتسمعه) أي: الشياطين أولا (فتوحيه) أي: فتلقيه (إلى الكهان) من الإيحاء وهو " الإعلام بالخفية "، وعن الزجاج: أن الإيماء يسمى وحيا. (فيكذبون) أي: الكهان (معها) أي: مع الكلمة الصادقة الواحدة (مائة كذبة، من عند أنفسهم) . والمعنى: أن هذا سبب موافقتهم في بعض الأخبار للواقع، لكن لما كان الغالب عليهم الكذب سد الشارع باب الاستفادة منهم، وقال: إنهم ليسوا بشيء ولهذا ما اعتبر شهادة الكاذب مع أن الكذوب قد يصدق، والله أعلم."

(كتاب الطب والرقى، باب الكهانة، ج:7، ص: 2904، ط: دارالفكر)

تفسيرقرطبي ميں ہے:

"مسألة- هذه الآي تدل على ‌أن ‌الجن ‌كالإنس ‌في ‌الأمر والنهي والثواب والعقاب. وقال الحسن: ليس لمؤمني الجن ثواب غير نجاتهم من النار، يدل عليه قوله تعالى:" يغفر لكم من ذنوبكم ويجركم من عذاب أليم". وبه قال أبو حنيفة قال: ليس ثواب الجن إلا أن يجاروا من النار، ثم يقال لهم: كونوا ترابا مثل البهائم. وقال آخرون: إنهم كما يعاقبون."

(ج: 16، ص: 217، ط: دار الكتب المصرية)

فتح الباری میں ہے:

"وقد أجمع العلماء ‌على ‌جواز ‌الرقى عند اجتماع ثلاثة شروط: أن يكون بكلام الله تعالى أو بأسمائه وصفاته وباللسان العربي أو بما يعرف معناه من غيره وأن يعتقد أن الرقية لا تؤثر بذاتها بل بذات الله تعالى واختلفوا في كونها شرطا والراجح أنه لا بد من اعتبار الشروط المذكورة."

(کتاب الطب، باب الرقي، ج: 10، ص: 195، ط: دارالمعرفة)

بذل المجہود میں ہے:

"وفي الحديث أعظم دليل على أن يجوز الأجرة على الرقى والطب، كما قاله الشافعي ومالك وأبو حنيفة وأحمد."

(کتاب الطب ، باب کیف الرقی ج : 11، ص: 267،  ط: مرکز الشیخ .... الهند)

فتاوی شامی میں ہے:

"لأن المتقدمين المانعين الإستئجار مطلقا جوزوا الرقية بالأجرة ولو بالقرآن كما ذكره الطحاوي؛ لأنها ليست عبادة محضة بل من التداوي."

(کتاب الإجارۃ، باب الإجارۃ الفاسدۃ،  ج: 6، ص: 57، ط: دارالفکر)

تنقیح الفتاوی الحامدیہ میں ہے:

"وأما حديث «الرهط الذين رقوا لديغا بالفاتحة وأخذوا جعلا فسألوا النبي - صلى الله عليه وسلم - فقال أحق ما أخذتم عليه أجرا كتاب الله» فمعناه إذا رقيتم به كما نقله العيني في شرح البخاري عن بعض أصحابنا وقال إن الرقية بالقرآن ليست بقربة أي؛ لأن المقصود بها الاستشفاء دون الثواب."

(کتاب الإجارۃ، ج: 2، ص: 128، ط: دارالمعرفة)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

’’جنات اور پر یوں کا انسان مرد وعورت پر آنا اور اس قسم کی باتیں بتانا ممکن ہے،اردو مراٹھی یا کسی اور زبان میں گفتگو کرنا بھی ممکن ہے ،علاج کے لیے کسی کا دواء بتلانا اور اس سے شفاکا حاصل  ہوجانا بھی ممکن ہے،حدیث وقرآن کی دعائیں پڑھ کردم کرکے اور تعویذ گنڈ ا دے کر استعمال کرانے سے جنات کا دفع ہوجانا بھی ممکن ہے،لیکن ایسی حالت کی بتائی بات کو حجت شرعیہ قرار دینا درست نہیں ہے۔۔۔جب کہ معالجہ صحیح طریقہ پر ہو،اس میں کوئی شرکیہ عمل یا کوئی غلط چیز نہ ہو ،جائز ہے اور اس کی وجہ سے کچھ ہدیہ دیاجائے ، اس کا لینا بھی درست ہے۔‘‘

(باب مایتعلق بالجنات،ج: 24، ص: 424، ط: فاروقیہ)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144602101681

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں