بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1446ھ 21 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

مضاربت کی ایک صورت کا بیان


سوال

  شاہد نعیم سے مضاربت کے طور پر پیسے لیتا ہے ، شاہد کا اپنا کاروبار ہے ،وہ نعیم کے پیسے اپنے کاروبار میں مضاربت کے طور پر شرکت کے لئے لیتا ہے اور نعیم سے کہتا ہے، تين ماہ کےلئے ایک لاکھ روپےدو،میں ہر ماہ آپ کو منافع کا 25 فیصد دیا کروں گا ، پھر تین ماہ بعد آپ کو آپ کےایک لاکھ روپےپورے واپس کر دوں گا ، تو کیا یہ مضاربت جائز ہے ؟

2۔ نعیم سے پیسے لئے مضاربت کے طور پر ،لیکن نعیم کو بالکل علم نہیں ہے کہ شاہد کیاکاروبار   کرتا ہے  ،تو اس سے مضاربت میں نقص تو نہیں آئے گا ؟

جواب

1۔صورتِ مسئولہ ميں  اگر  نعيم نے   بطورِ مضاربت ایک لاکھ روپے تین ماہ کےلیےاس شرط پر دیے کہ  ہر ماہ جتنا منافع آئے گا اس میں  سے   25 فی صد نفع نعیم کو ملے گا تو مضاربت کی یہ صورت  یہاں تک توجائز ہے لیکن آگے  مضارب ـ(  محنت کرنے والے) کا رب المال (سرمایہ دار  ) کو  یہ  گارنٹی دینا کہ تین ماہ بعد آپ کو آپ کےایک لاکھ روپےپورے واپس کر دوں گا،   کی  وجہ سے مضاربت کامعاملہ فاسد ہوگیا ہے ۔

اور  اگر نعيم (سرمایہ دار  )نےشاہدـ(  محنت کرنے والے)کو اس شرط پر ایک لاکھ  دیے ہیں  کہ   ہر ایک لاکھ روپے     پر 25 فی صد  نعیم کو ملے گا ،اور آگے مضارب ـ(  محنت کرنے والے) کا رب المال (سرمایہ دار  ) کو  یہ  گارنٹی دینا کہ تین ماہ بعد آپ کو آپ کےایک لاکھ روپےپورے واپس کر دوں گا،تو مضاربت کی ایسی صورت تو بالکل ناجائز ہے ،لہذا ایسی صورت میں مضارب کے ذمہ لازم ہوگا کہ وہ اپنےرب المال  (سرمایہ دار  ) کو تین لاکھ روپے واپس کرے ۔

2۔ اگر شاہد کے ساتھ مذکورہ رقم کے ساتھ متعین کام کرنے کی قید نہیں لگائی ہے ،تو شاہد کو اختیار ہےکہ وہ اس رقم سے جس طر ح چاہے جائز طور پر تجارت  کرے، كرسكتا ہے،لہذا اگر نعیم (سرمایہ دار) کو اس رقم سے کیا جانے  والا کاروبار  معلوم نہ ہو اس سے مضاربت  میں کوئی نقص نہیں آئے گابشر طیکہ مضاربت صحیح ہو۔

بدائع الصنائع میں ہے:

 "(ومنها) أن يكون المشروط لكل واحد منهما من المضارب ورب المال من الربح جزءا شائعا، نصفا أو ثلثا أو ربعا، فإن شرطا عددا مقدرا بأن شرطا أن يكون لأحدهما مائة درهم من الربح أو أقل أو أكثر والباقي للآخر لا يجوز، والمضاربة فاسدة؛ لأن المضاربة نوع من الشركة، وهي الشركة في الربح، وهذا شرط يوجب قطع الشركة في الربح؛ لجواز أن لا يربح المضارب إلا هذا القدر المذكور، فيكون ذلك لأحدهما دون الآخر، فلا تتحقق الشركة، فلا يكون التصرف مضاربة."

(كتاب المضاربة ، فصل في شرائط ركن المضاربة ، ج : 6 ،  ص : 86 ، ط : دار الكتب العلمية)

درر  الحکام فی شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:

 "إذا ‌وقت ‌رب ‌المال المضاربة بوقت معين فبمضي ذلك الوقت تنفسخ المضاربة ؛ لأن تعيين الوقت مفيد كالتقييد بنوع مال فهو معتبر."

 (الفصل الثالث في بيان أحكام المضاربة ، المادة: 1423 ، ‌إذا ‌وقت ‌رب ‌المال المضاربة بوقت معين ، ج : 3 ، ص :  454 ، ط :دار الجيل)

 التجريد للقدوری میں ہے: 

"قال أصحابنا: إذا ‌وقت ‌المضاربة جاز.....لنا: حديث عائشة رضي الله عنها أن النبي صلى الله عليه وسلم قال (المسلمون عند شروطهم).ولأنه أذن في التصرف؛ فلا يبطله التوقيت كالوكالة."

 (‌‌‌‌كتاب المضاربة ، مسألة : تأقيت المضاربة ، ج : 7 ، ص :  3509 ، ط : دار السلام)

تحفۃ الفقہاء میں ہے : 

" ثم هي نوعان مطلقة وخاصة؛أما المطلقة فأن يدفع المال إلى رجل ويقول دفعت هذا المال إليك مضاربة على أن الربح بيننا نصفان."

(‌‌كتاب المضاربة ،ج :3 ، ص : 222 ،ط :دار الكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144603101002

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں