بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1446ھ 19 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

مرحوم کی پنشن کا استعمال کرنے کا حکم


سوال

میرے والد صاحب جو کہ پاکستان اسٹیل مل سے ریٹائر ہوئے ، ان کے EOPI پیسے آتے ہیں،  جو کہ بڑھاپا الاؤنس کہلاتا ہے اور یہ پیسے ہر مہینے آتے ہیں،  ان پیسوں  کی چھ مہینے بعد بائیو میٹرک ہوتی ہے،  جو کہ پروف آف لائف کہلاتی ہے،  آیا کہ یہ بندہ  حیات ہے کہ نہیں،  بائیو میٹرک سال میں دو مرتبہ ہوتی ہے،  مارچ اور ستمبر میں اور آخری بائیو میٹرک 25 اگست کوہوئی تھی،  جو کہ ستمبر کی ہی شمار ہوگی اور اگلے سال مارچ تک چلے گی،  اب مسئلہ یہ ہے کہ دو ستمبر کو والد صاحب کا انتقال ہو گیا اور بینک والوں سے معلوم کیا تو وہ کہتے ہیں کہ انتقال کے بعد والدہ  کے نام سے پیسے آئیں گے ، لیکن  50 ٪ آئیں گے،  لیکن اگلے چار مہینے تک ابو کی سابقہ  بائیو میٹرک معتبر ہے تو وہ پورے آئیں گے،  کیونکہ والدہ تو عدت کی وجہ سے گھر سے باہر نہیں جا سکتی، اب  سوال یہ ہے کہ جو پیسے اگلے چار چھ مہینے تک پورے آئیں گے تو ہم استعمال کر سکتے ہیں،  یعنی کیونکہ آدھے تو والدہ کے نام کے ہوں گے اورآدھے والد کی بائیو میٹرک کی وجہ سے والد کے نام  کے ہوں گے،  مثلا 10 ہزار آتے ہیں، تو والدہ  کے نام کے جو ہوں گے وہ پانچ ہزار ہوں گے اور والد کے جو ہیں بائیومیٹرک کی وجہ سے وہ پانچ ہزار ہوں گے ، تو جو والد والےپانچ ہزار ہیں وہ ہم استعمال کر سکتے ہیں یا نہیں؟ یا ان کا کسی اور مصروف میں استعمال کریں؟

جواب

     واضح رہے کہ پنشن حکومت کی جانب سے سرکاری ملازم کے لیے عطیہ ہوتی ہے جو اس کی زندگی میں اس کو ملتی رہتی ہے اور اس کی وفات کے بعد قوانین کے مطابق یہ پنشن کسی وارث کے نام کر دی جاتی ہے ، چونکہ یہ عطیہ ہے اس لیے اس میں میراث کے احکام جاری نہیں ہوتے،  کیونکہ میراث اس مال میں جاری ہوتی ہے جو وفات کے وقت میت کی ملکیت میں موجود ہو۔

             صورت مسؤلہ میں جو پنشن والد  کے بائیو میٹرک کی وجہ سے ان کے اکاؤنٹ میں آئے گی، چونکہ ان  کی وفات کے بعدقانونی لحاظ سے ان کا پنشن کا حق ختم ہو گیا ہے اس لیے حکومت اور بینک کو لا علم رکھ کر پنشن وصول کرنا جائز نہیں ہے، اور نہ ہی اس کا استعمال جائز ہے،  لہذا پسماندگان کے لیے ضروری ہےکہ  جس ادارے سے پنشن آتی ہےاس ادارے کوان کی وفات کی خبر دے دیں، پھر  ادارے کے  قوانین کے مطابق جس کے نام یہ پنشن جاری کر دی جائے تو حاصل ہونے والی رقم اسی کی ہو گی اور اسے اپنی مرضی سے استعمال کرنے کی اجازت ہو گی، اگر والدہ کی عدت کے دوران ایسا کرنا ممکن نہ ہو تو فی الحال اضافی پانچ ہزار الگ رکھ لیں بعد میں ادارے سے رابطہ کر ان کا ضابطہ معلوم کر لیا جائے۔ 

مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ میں ہے:

"وعن أبي حرة الرقاشي، عن عمه - رضي الله عنه - قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم - " "ألا ‌لا ‌تظلموا، ألا لا يحل مال امرئ إلا بطيب نفس منه". رواه البيهقي في " شعب الإيمان "، والدارقطني(إلا بطيب نفس ) أي: بأمر أو رضا منه."

(باب الغصب والعارية، ج:5، ص:1974، ط: دار الفكر)

شرح المجلۃ میں ہے:

"فالتبرع هو إعطاء الشيء غير الواجب، إعطاؤه إحسانا من المعطي."

(المادۃ، 58،ج:1،ص:57،ط:دارالجیل)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"لايثبت الملك للموهوب له إلا بالقبض هو المختار، هكذا في الفصول العمادية."

(کتاب الھبة،  ج :4، ص:378، ط:دار االفكر) 

فتاوی شامی میں ہے:

"‌لا ‌يجوز ‌لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي."

(كتاب الحدود،ج:4،ص:61،ط:سعيد)

امداد الفتاویٰ میں ہے :

’’چوں کہ میراث اَموالِ مملوکہ میں جاری ہوتی ہے اور یہ وظیفہ محض تبرع واحسان سرکار کا ہے  بدون قبضہ مملوک نہیں ہوتا ،لہذا آئندہ جو وظیفہ ملے گا اس میں  میراث جاری نہیں ہوگی ،سرکار کو اختیار ہے جس طرح چاہے  تقسیم کردے۔‘‘

(کتاب الفرائض  ج 4 ص 342 ط:مکتبہ دارالعلوم کراچی) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144603102795

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں