بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

1 ذو القعدة 1446ھ 29 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

مشترکہ گھر کے کرائے کی تقسیم کا طریقہ


سوال

میرے والدین کا انتقال ہو چکا ہے ،اور میرے والد کی ملکیت میں ایک گھر تھا،وہ گھر ابھی تک ورثاء میں تقسیم نہیں ہوا ہے،اور وہ گھر کرائے پر دیا ہوا ہے ، اس گھر کا جو کرایا آتا ہے وہ ورثاء کے درمیان شرعاًکیسے تقسیم کیا جائے گا،جبکہ ورثاء میں پانچ بھائی اور تین بہنیں ہیں۔

وضاحت:

پہلے والد کا انتقال ہوا پھر اس کے تین سال بعد والدہ کا ۔

پانچ بھائیوں میں سے ایک بھائی کا انتقال والدین کے انتقال سے پہلے ہو  گیا تھا،اس کی بیوی اور بیٹی حیات ہیں ۔

جواب

واضح رہے کہ اگر بیٹے کا انتقال والد کی زندگی میں ہوجائے تو اس کا میراث میں  حصہ نہیں ہوتااور نہ ہی اس کی اولاد کا اپنے دادا کے ترکہ میں حصہ ہوتاہے،لہذاصورت مسئولہ میں مرحوم کے ترکہ کےگھرکےکرائے کی تقسیم  کا شرعی طریقہ یہ  ہے کہ مرحوم کے حقوق متقدمہ یعنی تجہیز و تکفین کا خرچہ نکالنے کے بعد اگرمرحوم پر کوئی قرضہ ہے تو اس کو ما بقیہ ترکہ سے ادا کرنے کے بعد  اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہے تو اس کو ما بقیہ   ایک تہائی ترکہ سے نافذ کرنے کے بعد کل کرائے کوگیارہ حصوں میں تقسیم کر کےدو دو حصے مرحوم کے ہر   ایک زندہ بیٹےکو اور ایک ایک حصہ ہرایک  بیٹی کو ملے گا،البتہ جس بیٹے کا انتقال ہو چکا ہے اس کی بیوہ اور بچوں کا شرعاًحصہ تو نہیں بنتا ،تا ہم اگر تمام ورثاء باہمی رضامندی سے ان کو کچھ دینا چاہیں تو دے سکتے ہیں، یہ ان کی طرف سے تبرع اور احسان ہوگا، جس پر اجر و ثواب کے مستحق ہوں گے۔

اورصورت تقسیم یہ ہے:11

بیٹابیٹابیٹابیٹابیٹیبیٹیبیٹی
2222111

یعنی فیصد کے اعتبار سے سو فیصد میں سے18.1818فیصدہرزندہ ایک بیٹے کواور9.090فیصد ہر ایک بیٹی کو دیا جائے گا۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144610100405

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں