بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 ذو الحجة 1445ھ 04 جولائی 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد اور مدرسوں کے چندہ کی رقم کوخیانت کرنااوردوبارہ معافی مانگنے کاحکم


سوال

 ہمارے یہاں مدرسہ کے مہتمم نے مدرسہ کے فنڈ کا غلط استعمال کرتے ہوئے اپنے رشتہ دار کو مدرسہ کی ایک لاکھ رقم دیدیاپھر تحقیق وتفتییش سےجب خیانت سامنے آئی تو جناب مہتمم صاحب نےمدرسہ کے شوریٰ کے افراد سے معافی مانگ لی اور چند کے علاوہ نے معاف بھی کردیا، سوال یہ ہے کہ ایسے خائن مہتمم اور خیانت پر معافی دینے والے شوریٰ کےافراد کے ساتھ عوام کیا سلوک کرے؟ کیا مدرسہ کی شوریٰ کو خیانت شدہ مال معاف کرنے کا شرعاً حق ہے ایسے مہتمم کے ساتھ کیا برتاؤ ہونا چاہیے ؟

جواب

واضح رہے کہ مسجد اور مدرسوں کے چندہ کی  رقم امانت ہو تی ہے ،  اس رقم کو اسی مصرف میں لگانا ضروری ہوتا ہے جس مقصد کے لیے وہ دی گئی ہو، اور  امانت میں بلا اجازتِ مالک تصرف کرنا جائز نہیں، اجتماعی مال  میں تصرف کرکے اپنی ذات کے لیے استعمال کرنا تمام اصحابِ حقوق کے ساتھ خیانت ہے۔

صورتِ  مسئولہ میں  مسجد اور  مدرسہ  کے چندہ کی رقم  امانت ہے، اس کو  اپنی ذات کے  لیے استعمال کرنا یا کسی کو بلاعوض دیناجائز نہیں ہے، اس لیے اگر خدا نخواستہ  مہتمم صاحب نے   چندہ کی رقم اپنے ذاتی استعمال   میں خرچ کی ہو   تو  اپنے اس عمل پر  اللہ کے حضور استغفار کریں ،اور  اتنی  ہی  رقم بطور ضمان کے مسجد اور مدر سہ کے فنڈ میں اداکردے،اور آئندہ کے لیے مکمل احتیاط کرے ، چوں کہ خیانت  کا تعلق مہتمم صاحب  کی ذات سے ہے اس لیے ان کو معاف کیا جاسکتا ہے ،لیکن چوں کہ غبن شدہ رقم کا تعلق مستحق افراد اور مدرسے کے مصارف سے ہے اس لیے  اس رقم کو معاف نہیں کیا جاسکتا اور بہر صورت مہتمم صاحب کو مقررہ رقم مدرسے کے فند میں ادا کرنی ہوگی۔

تاہم اگر مسجد یا مدرسے کی باقاعدہ انتظامیہ ہو اور اس نے مہتمم کے لیے تنخواہ مقرر کی ہو  اور مہتمم  ضابطے کے مطابق صرف اپنی تنخواہ کے بقدر رقم وصول کرتا ہو تو اس کی اجازت ہوگی،لہذا معافی مانگنے والے کے اور جس سے معافی طلب کی جارہی ہو، ان کے حالات مختلف ہیں اور حالات کے اعتبار سے حکم بھی مختلف ہے۔

جس سے معافی طلب کی جارہی ہو، اگر اسے اندازا  ہو کہ معافی مانگنے  والے کو معاف کردیا تو وہ دوبارہ زیادتی کرے گا اور اس کے اس عمل کی حوصلہ افزائی ہوگی، تو ایسی صورت میں اس کے فسق یا  جہالت کی اصلاح کی نیت سے  اسے معاف نہ کرنا اور جائز بدلہ لینا یا قیامت کے دن کے بدلہ سے ڈرانا صرف جائز  ہے، تاہم ایسے شخص کے دل میں یہ جذبہ ہونا بہتر ہے کہ جب اصلاح ہوجائے تو اسے دل سے معاف بھی کردے۔ نیز اگر یہ جذبہ بھی ہو کہ اصلاح نہ ہو، تب بھی دل سے معاف کردے؛ تاکہ قیامت میں مسلمان بھائی کی پکڑ نہ ہو، تو یہ اعلیٰ ظرفی کی بات ہے، اگرچہ اس پر لازم نہیں۔

اسی طرح معافی مانگنے والا اگر اپنی زیادتی پر نادم (پشیمان و پریشان) نہ ہو، بلکہ رسمی معافی مانگ رہا ہو اور صاحبِ حق اسے معاف نہ کرے تو اسے قیامت کے دن کی پکڑ سے ڈرنا چاہیے

اللہ تبارک وتعالی  کا ارشا ہے :

"{اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ الْخَآئِنِیْنَ }." [الانفال:58]
'' بے شک اللہ تعالیٰ خیانت کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔ ''
"{اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ كُلَّ خَوَّانٍ كَفُوْرٍ }." [الحج:38]
'' کوئی خیانت کرنے والا ناشکرا، اللہ تعالیٰ کو ہرگز پسند نہیں۔ ''

صحیح البخاری میں ہے:

"إن بعدكم قوما ‌يخونون ولا يؤتمنون، ويشهدون ولا يستشهدون، وينذرون ولا يفون، ويظهر فيهم السمن."

 (کتاب الشھادات،‌‌باب: لا يشهد على شهادة جور إذا أشهد،ج:3،ص:171،ط:السلطانية)

'' بے شک تمہارے بعد ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو خیانت کریں گے اور وہ امانت کی پاس داری کرنے والے نہیں ہوں گے۔ اور وہ گواہی دیں گے حال آں کہ  ان سے گواہی طلب نہیں کی جائے گی۔ اور نذریں مانیں گے مگر پوری نہیں کریں گے۔ اور ان میں موٹاپا عام ہوگا۔''

فتاوی شامی میں ہے:

"‌لا ‌يجوز ‌لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي."

[كتاب الحدود،ج:4،ص:61،ط:سعيد]

وایضا فیہ:

"(ويبدأ من غلته بعمارته)ثم ما هو أقرب لعمارته كإمام مسجد ومدرس مدرسة يعطون بقدر كفايتهم.

 (قوله: ثم ما هو أقرب لعمارته إلخ) أي فإن انتهت عمارته وفضل من الغلة شيء يبدأ بما هو أقرب للعمارة وهو عمارته المعنوية التي هي قيام شعائره قال في الحاوي القدسي: والذي يبدأ به من ارتفاع الوقف أي من غلته عمارته شرط الواقف أولا ثم ما هو أقرب إلى العمارة، وأعم للمصلحةكالإمام للمسجد، والمدرس للمدرسة يصرف إليهم إلى قدر كفايتهم، ثم السراج والبساط كذلك إلى آخرالمصالح."

(كتاب الوقف: ج:4، ص:366، ط: سعید)

وایضا فیہ:

"صرحوا بأن مراعاة غرض الواقفين واجبة."

(كتاب الوقف، مطلب في المصادقة على النظر، ج:4، ص: 445، ط: سعيد)

العنایہ مع فتح القدیر میں ہے :

"والأصل فیه أن الشرط إذا کان مقیداً والعمل به ممکناً وجب مراعاته والمخالفة فیه توجب الضمان".

( کتاب الودیعة،ج :8،ص:495،ط:دار الفكر )

 التفسير الكبير میں ہے: 

"الصفة الخامسة: قوله تعالى: والذين إذا أصابهم البغي هم ينتصرون والمعنى أن يقتصروا في الانتصار على ما يجعله الله لهم ولا يتعدونه، وعن النخعي أنه كان إذا قرأها قال كانوا يكرهون أن يذلوا أنفسهم فيجترئ عليهم السفهاء، فإن قيل هذه الآية مشكلة لوجهين الأول: أنه لما ذكر قبله وإذا ما غضبوا هم يغفرون فكيف يليق أن يذكر معه ما يجري مجرى الضد له وهو قوله والذين إذا أصابهم البغي هم ينتصرون؟ الثاني: وهو أن جميع الآيات دالة على أن العفو أحسن قال تعالى: {وأن تعفوا أقرب للتقوى} [البقرة: 237] وقال: وإذا مروا باللغو مروا كراما [الفرقان: 72] وقال: {خذ العفو وأمر بالعرف وأعرض عن الجاهلين} [الأعراف: 199] وقال: {وإن عاقبتم فعاقبوا بمثل ما عوقبتم به ولئن صبرتم لهو خير للصابرين} [النحل: 126] فهذه الآيات تناقض مدلول هذه الآية والجواب: أن العفو على قسمين أحدهما: أن يكون العفو سببا لتسكين الفتنة وجناية الجاني ورجوعه عن جنايته والثاني: أن يصير العفو سببا لمزيد جراءة الجاني ولقوة غيظه وغضبه، والآيات في العفو محمولة على القسم الأول، وهذه الآية محمولة على القسم الثاني، وحينئذ يزول التناقض والله أعلم، ألا ترى أن العفو عن المصر يكون كالإغراء له ولغيره، فلو أن رجلا وجد عبده فجر بجاريته وهو مصر فلو عفا عنه كان مذمومًا.وروي أن زينب أقبلت على عائشة فشتمتها فنهاها النبي صلى الله عليه وسلم عنها فلم تنته فقال النبي صلى الله عليه وسلم: «دونك فانتصري».

وأيضا إنه تعالى لم يرغب في الانتصار بل بين أنه مشروع فقط، ثم بين بعده أن شرعه مشروط برعاية المماثلة، ثم بين أن العفو أولى بقوله فمن عفا وأصلح فأجره على الله فزال السؤال والله أعلم."

(سورة الشورى (42) : الآيات 40 الى 46،ج:27،ص:604،ط:دار إحياء التراث العربي)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"وعن جابر عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " «من اعتذر إلى أخيه فلم يعذره، أو لم يقبل عذره ; كان عليه مثل خطيئة  صاحب مكس»". رواه البيهقي في " شعب الإيمان " وقال: المكاس: العشار.

5051 - (وعن جابر عن رسول الله صلى الله عليه وسلم: من اعتذر إلى أخيه) أي: المسلم (فلم يعذره) بفتح الياء ويضم وكسر الذال (أو لم يقبل عذره) شك من الراوي وهو تفسير ما قبله (كان عليه مثل خطيئة صاحب مكس) . بفتح الميم أي صاحب عشر، ولما كان الغالب عليه الظلم وعدم العمل بالعلم أطلق ذمه، أو المراد بالمكس أخذ مال الناس بالظلم، ثم رأيت القاموس فقال: المكس النقص والظلم. (رواه البيهقي في شعب الإيمان) . وفي الجامع: رواه ابن ماجه والضياء عن جودان ولفظه: «من اعتذر إليه أخوه بمعذرة فلم يقبلها كان عليه من الخطيئة مثل صاحب مكس» . (قال) أي: البيهقي في تفسير حديثه (المكاس: العشار) . وفي بعض الأصول الماكس: العشار، ولعل المناسبة التشبيهية أن صاحب المكس أيضا لم يقبل اعتذار التاجر في قوله: إن ماله مال أمانة، أو أخذ منه في بندر آخر، أو أنه مديون ونحو ذلك، وكون المشبه به أقوى هو أنه مع هذا يظلم عليه بأخذ ماله مع التعدي إلى الزائد، ونقل ميرك عن المنذري أن حديث جابر رواه الطبراني أيضا في الأوسط، وروي عن عائشة مرفوعا: " «من اعتذر إلى أخيه المسلم فلم يقبل عذره لم يرد على الحوض» ". رواه الطبراني في الأوسط.

وروي عن ابن عباس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " «ألا أنبئكم بشراركم؟ قالوا: بلى إن شئت يا رسول الله! قال: إن شراركم الذي ينزل وحده ويجلد عبده ويمنع رفده، ألا أنبئكم بشر من ذلك؟ قالوا: بلى إن شئت يا رسول الله! قال: من يبغض الناس وهم يبغضونه قال: أفلا أنبئكم بشر من ذلك؟ قالوا: بلى إن شئت يا رسول الله! قال: الذين لا يقيلون عثرة ولا يقبلون معذرة ولا يغفرون ذنبا قال: أفلا أنبئكم بشر من ذلك؟ قالوا: بلى يا رسول الله! قال: من لا يرجى خيره ولا يؤمن شره» ". رواه الطبراني وغيره، وعن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " «عفوا عن نساء الناس تعف نساؤكم، وبروا آباءكم يبركم أبناؤكم، ومن أتاه أخوه متنصلا فليقبل ذلك محقا كان أو مبطلا، فإن لم يفعل لم يرد على الحوض» ". رواه الحاكم وقال: صحيح الإسناد والتنصل: الاعتذار."

(کتاب الآداب،باب ما ينهى عنه من التهاجر والتقاطع واتباع العورات،ج:8،ص:3161/ 3162،ط:دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144503100960

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں