بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

مسجد کی دکان میں ہیئر ڈریسر کا کام کرنا


سوال

میں  ایک مسجد  کی ملکیت کی دکان میں اپنا کام ہیئر ڈریسر کا کھولنا چاہتا ہوں، وہ دکان  مسجد سے کافی دور  موجود ہے، مسجد کی کمیٹی نے کہا ہے کہ ہیئر ڈریسر کا کام جائز نہیں ہے، راہ نمائی فرمائیں کہ ہیئر ڈریسر کا کام شرعاً کیسا ہے؟ جائز ہے یا نا جائز؟

جواب

 نائی کا پیشہ مکمل حرام اور ممنوع نہیں ہے، حلال یا حرام ہونے میں تفصیل یہ ہے کہ جو کام حرام ہیں، یعنی داڑھی مونڈنا یا شرعی مقدار سے کم کرنا  بھنویں بنانا، ان کاموں کی اجرت بھی حرام ہے، اور جو کام جائز ہیں جیسے سر کے بال کاٹنا یا ایک مشت سے زائد ڈاڑھی کو  شرعی طریقے پر درست کرنا، ان کاموں کی اجرت بھی حلال ہے، البتہ جیسے  خلافِ شرع بال (مثلاً: سر کے کچھ حصے کے بال چھوٹے اور کچھ کے بڑے) رکھنا ممنوع ہے اسی طرح خلافِ شرع بال کاٹنے کی اجرت بھی حلال طیب نہیں۔

 لہذا صورتِ  مسئولہ میں اگر آپ مسجد کی دکان میں ہیئر ڈریسنگ کا کام شروع کرنا  چاہتے ہیں اور صرف جائز کام کرنے کی ذمہ داری لیں  تو  جائز کام کرکے اس کی اجرت وصول کرنا جائز ہے، اور مسجد کمیٹی کا اس کی آمدنی سے کرایہ وصول کرنا بھی جائز ہوگا۔  اور  اگر آپ جائز کاموں کے ساتھ   ناجائز کام بھی کریں تو ناجائز کاموں کی آمدنی بھی ناجائز ہو گی۔

فتاوی شامی میں ہے:

"و أما الأخذ منها و هي دون ذلك كما يفعله بعض المغاربة، و مخنثة الرجال فلم يبحه أحد اهـ ملخصًا."

(كتاب الصوم، باب ما يفسد الصوم وما لايفسده (2/ 418)،ط.سعيد)

بدائع الصنائع میں ہے:

"و على هذا يخرج الاستئجار على المعاصي أنه لايصح لأنه استئجار على منفعة غير مقدورة الاستيفاء شرعًا كاستئجار الإنسان للعب و اللهو، و كاستئجار المغنية، و النائحة للغناء، و النوح ... و كذا لو استأجر رجلًا ليقتل له رجلًا أو ليسجنه أو ليضربه ظلمًا و كذا كل إجارة وقعت لمظلمة؛ لأنه استئجار لفعل المعصية فلايكون المعقود عليه مقدور الاستيفاء شرعًا، فإن كان ذلك بحق بأن استأجر إنسانًا لقطع عضو جاز."

(كتاب الإجارة،فصل في أنواع شرائط ركن الإجارة (4/ 189)،ط. دار الكتب العلمية، الطبعة: الثانية، 1406هـ - 1986م)

المحیط البرہانی میں ہے:

"لاتجوز الإجارة على شيء من اللهو و المزامير و الطبل و غيره؛ لأنها معصية و الإجارة على المعصية باطلة؛ و لأنّ الأجير مع المستأجر يشتركان في منفعة ذلك فتكون هذه الإجارة واقعةً على عمل هو فيه شريك."

(كتاب الإجارات، الفصل الخامس عشر: في بيان ما يجوز من الإجارات و ما لايجوز، (7/ 482)، ط: دار الكتب العلمية، بيروت، الطبعة: الأولى، 1424 هـ- 2004 م )

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144601101583

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں