ہمارے علاقے میں مدارس کے سفراء حضرات چندے کے لیے آتے ہیں، چندہ کرنے کا یہ طریقہ اختیار کرتے ہیں کہ مساجد میں اذان کے لاؤڈ اسپیکر میں مسلسل اعلانات کرتے ہیں، گھروں سے چندہ بھیجنے کی ترغیب دیتے ہیں، محلے کے جو بچے چندہ لاتے ہیں، لاؤڈ اسپیکر پر ایک ایک کا نام لیتے ہیں کہ فلاں بچے نے اتنے پیسے چندے میں دیے، فلاں نے اتنے دیے، پھر ان کے گھر والوں کے لیے دعائیں کرتے ہیں، تاکہ دیگر لوگ بھی حصہ لیں، اس لیے بچے بھی گھروں سے پیسے لاتے ہیں کہ ان کا نام لاؤڈ اسپیکر پر لیا جائے، جس سے بچے مسجد میں شور و شغب کرتے ہیں، گندے پاؤں سے مسجد میں داخل ہوتے ہیں۔
دیہات کی مساجد کھلی ہوتی ہیں، اس لیے یہ حضرات اکثر بغیر اجازت کے مسجد کا لاؤڈ اسپیکر استعمال کرتے ہیں، بعض دفعہ ایسے وقت میں اعلانات کرتے ہیں کہ لوگ آرام کررہے ہوتے ہیں جیسے فجر کے آدھا گھنٹہ بعد اعلانات شروع کر دیتے ہیں، یہ اعلانات لاؤڈ اسپیکر پر مسلسل کرتے ہیں، اور ایسے الفاظ استعمال کرتے ہیں کہ جس سے لوگوں کے ذہنوں میں مدارس کے بارے میں تحقیر پیدا ہوتی ہے، جیسے مدرسہ کے مالی حالات ٹھیک نہیں ہیں۔
(1) کیا مذکورہ طریقے پر مساجد ومدارس کے لیے چندہ کرنا جائز ہے؟
(2) کیا مسجد کا لاؤڈ اسپیکر چندے کے اعلانات کے لیے استعمال کرنا جائز ہے؟
دینی کام کے لیے مسجد میں چندہ کرنا جائز ہے، نیز چندہ دینے والوں کے لیے دعا کرنا بھی جائز ہے، بلکہ امرِمستحسن ہے، لیکن مسجد کا لاؤڈ اسپیکر اجازت کے بغیر استعمال کرنا، اور پھر مسلسل اعلان کرتے رہنا جس سے لوگوں کے کام کاج اور آرام میں خلل ہو درست نہیں، نیز مسجد کو گندگی اور شور و شغب سے پاک رکھنا ضروری ہے، لہذا اگر بچے چندہ لے کر آئیں، اور گندہ پاؤں کے ساتھ مسجد میں داخل ہوتے ہوں، اور پھر مسجد میں شور و شغب کرتے ہوں، تو یہ امور اس طرح کے چندہ کرنے میں مزید گناہ کا باعث ہیں، لہذا اس طریقے پر چندہ کرنے سے اجتناب لازم ہے۔
اگر چندہ کی واقعی ضرورت ہے تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ نماز کے بعد لاؤڈ اسپیکر کے بغیر اعلان کرکے اس طور پر چندہ کیا جائے، کہ نمازیوں کی نماز میں خلل اور تشویش واقع نہ ہو، یا پھر اجازت لے کر مسجد کے لاؤڈ اسپیکر پر ایک بار اعلان کیا جائے، اور پھر لوگوں کی آمد کا انتظار کیا جائے۔
امداد الفتاویٰ میں ہے:
”سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ عیدگاہ یا جامع مسجد یا اور کسی مسجد میں چندہ مانگنا یا اس کی ترغیب دینا اور سائلوں کو صدقات خیرات دینا کیسا ہے؟
الجواب: اگر شق صفوف نہ ہو، مرور بین یدی المصلی نہ ہو، تشویش علی المصلین نہ ہو، حاجت ضروریہ ہو تو درست ہے۔”
(احکام المسجد، ج:2، ص:699، ط:مکتبہ دار العلوم کراچی)
صحیح بخاری میں ہے:
"عن عبد الله بن أبي أوفى قال:كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا أتاه قوم بصدقتهم قال: (اللهم صل على آل فلان). فأتاه أبي بصدقته، فقال: (اللهم صل على آل أبي أوفى)."
(کتاب الزکاۃ، باب: صلاة الإمام، ودعائه لصاحب الصدقة، ج:2، ص:544، ط:دار ابن كثير)
ترجمہ:”عبد اللہ ابن اوفی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب کوئی قوم اپنا صدقہ لے کر اللہ کے رسول ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتی تو آپ ﷺ فرماتے: اے اللہ! فلاں کو خیر وبرکت عطا فرمائیے، میرے والد بھی اپنا صدقہ لے کر حاضر ہوئے، تو آپ ﷺ نے فرمایاکہ: اے اللہ! آل ابی اوفی کو خیر وبرکت عطا فرمائیے۔“
مرقاۃ المفاتیح میں ہے:
"وعن جرير رضي الله عنه قال: «كنا في صدر النهار عند رسول الله صلى الله عليه وسلم فجاء قوم عراة مجتابي النمار أو العباء، متقلدي السيوف، عامتهم من مضر، بل كلهم من مضر، فتمعر وجه رسول الله صلى الله عليه وسلم لما رأى بهم من الفاقة، فدخل ثم خرج، فأمر بلالا فأذن، وأقام فصلى ثم خطب فقال: {يا أيها الناس اتقوا ربكم الذي خلقكم من نفس واحدة} [النساء: 1] إلى آخر الآية {إن الله كان عليكم رقيبا} [النساء: 1] ، والآية التي في الحشر {اتقوا الله ولتنظر نفس ما قدمت لغد} [الحشر: 18] تصدق رجل من ديناره، من درهمه، من ثوبه، من صاع بره من صاع تمره حتى قال " ولو بشق تمرة ". قال: فجاء رجل من الأنصار بصرة كادت كفه تعجز عنها، بل قد عجزت، ثم تتابع الناس حتى رأيت كومين من طعام وثياب. حتى رأيت وجه رسول الله صلى الله عليه وسلم يتهلل كأنه مذهبة فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من سن في الإسلام سنة حسنة فله أجرها وأجر من عمل بها من بعده من غير أن ينقص من أجورهم شيء، ومن سن في الإسلام سنة سيئة كان عليه وزرها ووزر من عمل بها من بعده من غير أن ينقص من أوزارهم شيء» ". رواه مسلم.
(فأذن، وأقام فصلى) أي: إحدى الصلوات المكتوبة بدليل الأذان والإقامة، والأظهر أنها الظهر أو الجمعة لقوله: في صدر النهار."
(كتاب العلم، ج:1، ص:292، ط:دار الفکر)
شرح النووی علی مسلم میں ہے:
"(فصلى ثم خطب) فيه استحباب جمع الناس للأمور المهمة ووعظهم وحثهم على مصالحهم وتحذيرهم من القبائح."
(كتاب الزكاة، باب الحث على الصدقة ولو بشق تمرة، ج:7، ص:102، ط:دار إحياء التراث العربي)
فتاویٰ شامی میں ہے:
"شرط الواقف كنص الشارع أي في المفهوم والدلالة ووجوب العمل به."
(کتاب الوقف، 433/4، ط:سعید)
وفیه أیضاً:
"أنهم صرحوا بأن مراعاة غرض الواقفين واجبة."
(کتاب الوقف، مطلب مراعاة غرض الواقفين واجبة والعرف يصلح مخصصا، 433/4، ط:سعید)
فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
"ذكر الفقيه - رحمه الله تعالى - في التنبيه حرمة المسجد خمسة عشر أولها أن يسلم وقت الدخول إذا كان القوم جلوسا غير مشغولين بدرس ولا بذكر، فإن لم يكن فيه أحد أو كانوا في الصلاة فيقول السلام علينا من ربنا، وعلى عباد الله الصالحين. والثاني أن يصلي ركعتين قبل أن يجلس. والثالث أن لا يشتري ولا يبيع. والرابع أن لا يسل السيف. والخامس أن لا يطلب الضالة فيه. والسادس أن لا يرفع فيه الصوت من غير ذكر الله تعالى. والسابع أن لا يتكلم فيه من أحاديث الدنيا. والثامن أن لا يخطي رقاب الناس. والتاسع أن لا ينازع في المكان. والعاشر أن لا يضيق على أحد في الصف. والحادي عشر أن لا يمر بين يدي المصلي. والثاني عشر أن لا يبزق فيه. والثالث عشر أن لا يفرقع أصابعه فيه. والرابع عشر أن ينزهه عن النجاسات والصبيان والمجانين وإقامة الحدود. والخامس عشر أن يكثر فيه ذكر الله تعالى، كذا في الغرائب."
(کتاب الکراھیة، الباب الخامس في آداب المسجد والقبلة والمصحف وما كتب فيه شيء من القرآن، ج:5، ص:321، ط: دار الفکر)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144607101851
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن