بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

1 ذو القعدة 1446ھ 29 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

معاہدہ ملازمت کی خلاف ورزی کرنے پر کمپنی کا ملازم کی تنخواہ کاٹنے کا حکم


سوال

    ادارہ اور کمپنی کے معاہدہ ملازمت میں  عموماً  مندرجہ ذیل شرائط   عائد کی جاتی ہیں :

(1) جب کوئی ملازم چھوڑ کے جانا چاہتا ہو تو وہ فوری طور پر جائے ملازمت نہیں چھوڑ سکتا، بلکہ اسے استعفیٰ (Resign) دینے کے بعد عموماً ایک ماہ اور گزار نا ہوتا ہے ،اور بعض اداروں میں یہ مدت زیادہ بھی ہوتی ہے، اس مدت میں دہ اپنا کام اور ذمہ داری کسی دوسرے ملازم کو منتقل کرتا ہے ،تاکہ کمپنی کو اس کے جانے سے نقصان  نہ ہو۔ لہذا ملازم کے لئے ملازمت کی طے شدہ شرائط کی پابندی کر نالازم ہوتا ہے، اگر وہ یہ شرط پوری نہیں کرتا تو ادارہ  یا کمپنی اس کی ایک ماہ کی یا جو معاہد ہ ملازمت میں طے ہو جائےاتنی تنخواہ کاٹ لیتی ہے اور اسے ادا نہیں کرتی، کیا ایسا کر ناشر عا جائز ہے؟

(2) اسی طرح ادارہ یا کمپنی کسی ملازم کو فوری طور پربر طرف نہیں کر سکتی، بلکہ برطرفی سے ایک ماہ قبل اسے اطلاع دی جاتی ہے کہ یہ مہینہ آپ کا ہمارے ساتھ آخری مہینہ ہے، اس دوران وہ اپنے لئے کوئی دوسری معاشی مشغولیت تلاش کرتا ہے ، اگرادار ہ یا کمپنی اسے فوری طور پر بر طرف کرتی ہے تو اسے ایک ماہ یا جو بھی معابدہ ملازمت میں طے ہو  دینے کی پابند ہوتی ہےکیا اس طرح کی شرط عائد کرنا جائز ہے ؟

(3)بعض کمپنیاں  شرعی قباحت سے بچنے کے لیے معاہدہ مدت میں یہ بات شامل کر لیتی ہیں کہ جس وقت آپ استعفی دیں گے اس ماہ کی اور جب تک آپ کمپنی میں بقیہ ایام گزاریں گے ،آپ کی تنخواہ کا %25 تو اس کام کے عوض میں ہو گا جس کام کے لیے آپ کو ملازمت دی گئی تھی ،بقیہ %75 حصہ اس کام کے عوض ہو گا کہ آپ اپنی تمام ذمہ داریاں کمپنی کے متعین کر دہ فرد کو منتقل کریں گے ، تاکہ آپ کی ملازمت چھوڑ دینے کی وجہ سے کمپنی حرج، نقصان اور خسارے سے بچ سکے، لہذا اگر وہ اپنی تمام ذمہ داریاں دوسرے کو منتقل کرتا ہے تو اس کو مکمل تنخواہ دی جاتی ہے، اسکے بر عکس صرف%25 دےکر اسے رخصت کر دیا جاتا ہے۔کیا اس طرح کا معاہدہ کر ناشر عا جائز ہے ؟

چونکہ اداروں میں مذکورہ دونوں صورتیں رائج العمل ہیں، کیا اس کے متبادل ایسی صورتیں ممکن ہیں جن سے ملازم اور کمپنی دونوں کو نقصان سے بچایا جاسکے اور اس میں شرعا کوئی قباحت بھی نہ ہو اور ان کا نفاذ بھی قابل عمل ہو۔

جواب

1- ملازم کا ادارے یا کمپنی کے ساتھ معاہدہ فقہی اعتبار سے اجیر خاص کے حکم میں ہے ،اور اجیر خاص مقررہ مدت میں اپنے آپ کوکام کے لئے ادارے کے حوالے کرنے کی بناء پر طے شدہ اجرت کا مستحق ہوتاہے،اور  کمپنی  کاحرج سے بچنے کےلئے کام چھوڑنے سے ایک ماہ  قبل پیشگی اطلاع کی شرط لگانا(عرف کی بناءپر)شرعا جائز ہے ،لیکن ملازم کی جانب سے بر وقت اطلاع نہ کرنے کی صورت میں  ملازم کی ایک ماہ کی تنخواہ  کاٹناشرعا ًجائز نہیں،نیز  پیشگی اطلاع کے بغیر کام چھوڑنے پر معاہدے کی خلاف ورزی کرنے کی بناء پر ملازم گناہ گار ہوگا ۔

2-اگرکمپنی  خود ملازم سے یہ معاہدہ کرتی ہےکہ پیشگی اطلاع نہ دینے کی صورت میں کمپنی ملازم کو بر طرفی کے وقت ایک ماہ کی زائد تنخواہ اداکرے گی تو یہ کمپنی کی طرف سے تبرع شمار ہوگا، اور ملازم کے لئے اس رقم کا لینا جائز ہو گا۔

3-جس ماہ کے آخر تک ملازم اپنا کام اور کمپنی کی جانب سے مفوضہ ذمہ داری سر انجام دے چکا ہو اس ماہ تک کی تنخواہ کا ملازم مستحق ہے۔وہ مکمل تنخواہ ملازم کو اداکرنا لازم ہوگا ۔  اور اس میں کسی بھی قسم کی کٹوتی کے لیے شرعاً کوئی حیلہ کرنا جائز نہیں۔ البتہ ملازم سے یہ وعدہ لیا جا سکتا ہے کہ آپ جب استعفیٰ دیں گے، تو استعفیٰ سے پہلے اپنا کام اور ذمہ داری کسی دوسرے ملازم کو منتقل کریں گے، جس کی پاسداری کرنا ملازم پر اخلاقاً اور دیانۃً لازم ہے۔ اور اگر وہ استعفیٰ سے پہلے اپنا کام اور ذمہ داری کسی دوسرے ملازم کو منتقل نہیں کرتا، تو وعدے کی خلاف ورزی کی بناء پر ملازم گناہ گار ہوگا، تاہم وہ اپنی پوری تنخواہ کا مستحق ہوگا۔

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"عن عمرو بن عوف المزني عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:"الصلح ‌جائز ‌بين ‌المسلمين إلا صلحا حرم حلالا أو أحل حراما والمسلمون على شروطهم إلا شرطا حرم حلالا أو أحل حراما" . رواه الترمذي وابن ماجه وأبو داود وانتهت روايته عند قوله شروطهم."

"ترجمہ:نبی کریم ﷺ نے فرمایا:"مسلمانوں کے درمیان صلح جائز ہے، سوائے اس صلح کے جو کسی حلال کو حرام کر دے یا کسی حرام کو حلال کر دے۔ اور مسلمان اپنی شرائط کے پابند ہیں، مگر وہ شرط جو کسی حلال کو حرام کر دے یا کسی حرام کو حلال کر دے۔"

[كتاب البيوع، باب الإفلاس والإنظار، الفصل الثاني، ص:253،ط:قديمي]

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"والأجير الخاص من يستحق الأجر بتسليم نفسه وبمضي المدة ولا يشترط العمل في حقه لاستحقاق الأجر."

(کتاب الاجارۃ، الباب  الثامن و العشرون ،الفصل الاول ، ص:500،ج:4،ط:رشیدیۃ)

وفیہ ایضاً:

"والأوجه أن يقال الأجير المشترك من يكون عقده واردا على عمل معلوم ببيان عمله والأجير الخاص من يكون العقد واردا على منافعه ولا تصير منافعه معلومة إلا بذكر المدة أو بذكر المسافة. كذا في التبيين."

(کتاب الاجارۃ ،الباب  الثامن و العشرون ،الفصل الاول ، ص:500،ج:4،ط:رشیدیۃ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144608101628

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں