بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

معاملات میں بدگمانی رکھنا


سوال

اگر اپنے سگے بھائی کے متعلق اس کے ماضی کے معاملات کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ گمان کیا جائے کہ وہ بے ایمانی کرے گا اور حق تلفی کرے گا اور آج بھی اس کا یہی طریقۂ کار ہو که وہ الزام تراشیوں سے کام لیتا ہو اور اپنی غلطیوں پر رجوع نہ کیا ہو تو اس متعلق گمان کرنے کا کیا حکم ہے؟ نیز گمان کی تعریف کیا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ عام طور پر شریعت نے مسلمانوں کے ساتھ بدگمانی کو حرام قرار دیا ہے ،البتہ اگرکسی شخص کی معاملات میں بے ایمانی لوگوں کے سامنے بالکل عیاں ہو  اور ماضی میں بارہا اس کا مشاہدہ اور تجربہ بھی ہوچکاہو تو ایسے شخص سے متعلق اس کی بدعملیوں کے مطابق گمان رکھتے ہوئے احتیاط کرنا جائز ہے۔

بد گمانی کی تعریف:دل میں کسی شخص کے برے ہونے کا یقین کرلینابدگمانی کہلاتا ہے۔(اور  آسان الفاظ میں کسی شخص سے متعلق دل میں برے خیالات رکھنے کو بد گمانی کہتے ہیں۔)

احیاء علوم الدین میں ہے:

"اعلم أن سوء الظن حرام مثل سوء القول فكما يحرم عليك أن تحدث غيرك بلسانك بمساويء الغير فليس لك أن تحدث نفسك وتسيء الظن بأخيك ولست أعني به إلا عقد القلب وحكمه على غيره بالسوء ..... والظن عبارة عما تركن إليه النفس ويميل إليه القلب.

فقد قال الله تعالى: "يا أيها الذين آمنوا اجتنبوا كثيرا من الظن إن ‌بعض ‌الظن ‌إثم" وسبب تحريمه أن أسرار القلوب لا يعلمها إلا علام الغيوب فليس لك أن تعتقد في غيرك سوءا إلا إذا انكشف لك بعيان لا يقبل التأويل فعند ذلك لا يمكنك إلا أن تعتقد ما علمته وشاهدته."

(کتاب آفات اللسان،ج3،ص150،ط؛دار المعرفۃ)

روح المعانی میں ہے:

"فإن من الظن ما يباح اتباعه كالظن في الأمور المعاشية."

(سورۃ الحجرات،ج13،ص307،ط:دار الکتب العلمیۃ)

عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری میں ہے:

"غير أنه من ظهر منه فعل منكر فقد عرض نفسه لسوء الظن والتهمة في دينه فلا حرج على من أساء الظن به، وقد قال ابن عمر: كنا إذا فقدنا الرجل في صلاة العشاء والصبح أسأنا به الظن."

(کتاب الادب،باب مایکون من الظن،ج22،ص138،ط:دار احیاء التراث العربی)

تفسیر القرطبی میں ہے:

"وأكثر العلماء على أن الظن القبيح بمن ظاهره الخير لا يجوز، وأنه لا حرج في الظن القبيح بمن ظاهره القبح، قاله المهدوي."

(سورۃ الحجرات،ج16،ص332،ط؛دار الکتب المصریۃ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144310100817

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں