محرم کے مہینے میں بال کاٹنا یا ناخن کاٹنا جائز ہے یا نہیں؟
واضح رہے کہ محرم کے مہینے کی دس تاریخ کو روزہ رکھنا اور اہل وعیال پر خرچ میں وسعت کرنا تو روایات سے ثابت ہے ،اس کے علاوہ جو افعال مروج ہیں ،روایات میں ان کا کوئی ثبوت نہیں ،لہذا صورتِ مسئولہ میں محرم کے مہینے میں بال کاٹنا اور ناخن تراشنا جائز ہے ،اس میں شرعاً کوئی قباحت نہیں ۔
مشکوۃ شریف میں ایک حدیث مروی ہے:
"وعن ابن مسعود قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من وسع على عياله في النفقة يوم عاشوراء وسع الله عليه سائر سنته» . قال سفيان: إنا قد جربناه فوجدناه كذلك. رواه رزين وروى البيهقي في شعب الإيمان عنه وعن أبي هريرة وأبي سعيد وجابر وضعفه."
(کتاب الزکاة،باب فضل الصدقة ،الفصل الثالث،172/1،ط:رحمانية)
اس حدیث کی تشریح میں مظاہر حق میں لکھاہے:
"بعض لوگوں نے عاشورہ کے دن سرمہ لگانے کے بارے میں جو حدیث نقل کی ہے،اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے،اسی طرح عاشورہ کے دن اور دس افعال کے سلسلے میں جو حدیث نقل کی جاتی ہے،اس کی بھی کوئی اصل نہیں ہے،البتہ عاشورہ کے دن صحیح احادیث کے ذریعے صرف روزہ رکھنا اور کھانے میں وسعت اختیار کرنا ثابت ہے۔"
(مظاہرِ حق،266/2،ط:دار الاشاعت)
فتاوی محمودیہ میں ہے:
"یومِ عاشوراء میں روزہ اور خرچ کی کشادگی کی فضیلت دیگر کتب میں بھی ہے،اس میں کچھ حرج نہیں ،بلکہ بہتر ہے،باقی جملہ امور مذکورہ کی حصوصیت اس روز کے ساتھ حدیث وفقہ سے ثابت نہیں۔"
(باب البدعات والرسوم،یومِ عاشوراء کی خصوصیات،274/3،ط:مکتبۂ عمر فاروق،کراچی)
امداد الفتاوی میں ہے:
"دریں روز جز صیام از عبادت وتوسیع علی العیال از عادات چیزے دیگر در شریعت وارد نشدہ ،لہذا زیادت بریں ہر چہ باشد بدعت باشد،كما في الدر المختار :في يوم عاشوراء يكره كحلهم ولابأس بالمعتاد خلطا ويوجر وقال الشامي عن ابن رجب كل ماروي في فضل الإكتحال والإختضاب والإغتسال فموضوع لايصح."
(کتاب البدعات،بعض بدعاتِ محرم،،ط:مکتبۂ دارالعلوم،کراچی)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144401100778
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن