بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1446ھ 21 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

محرم الحرام کے مہینے کے اعمال


سوال

محرم الحرام کے مہینے میں کون سے اعمال کرنے چاہییں؟

جواب

واضح رہے کہ محرم کا مہینہ  اشہر ِحرم  میں شمار ہوتاہے،جن کی فضیلت قرآن وحدیث میں آئی ہے،اور یہ وہ مہینہ ہے کہ احادیث  مبارکہ میں اس  کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف آتی ہے،اور  یہ مہینہ ایسی بزرگی والا ہے جس کا ادب واحترام نزولِ کتاب کے زمانہ میں اہلِ کتاب اور کفارِمکہ بھی کیا کرتے تھے۔

لہذا یہ قابل احترام مہینہ ہے،اور اس میں چندکام ہیں جن کو ہمیں  انجام دیناہے:

1:یوم عاشوراء کا روزہ رکھنا ، 2:گھر والوں پر خرچ میں توسُّع کرنا، 3: فرائض کا اہتمام اورنفلی عبادات بکثرت کرنا، 4:گناہوں سے بچنے کی کوشش کرنا،  5: اتباعِ سنت کا التزام کرنا۔

باقی چندامور ایسے ہیں جن سے بچنا لازم ہے:

1:کالا لباس پہننا اور کالا جھنڈا لگانا ، 2:نحوست اورغم کا مہینہ سمجھنا، 3: نوحہ /سوگ وتعزیہ اور ماتم کرنا ، 4:شربت وغیرہ کی سبیلیں لگانا ، 5: کھچڑایا اور کچھ کھانا پکانا اور احباب یا مساکین کودینا اور اس کا ثواب حضر ت امام حسین رضی اللہ عنہ کو بخش دینا،6:مجمع فساق وفجار کا جمع ہونااور فحش واقعات بیان کرنا،7:ان ایام میں قصدا زینت ترک کرنا،8:معازف ومزامیر (باجاوبانسری )کا بجانا اوردیگر من گھڑت رسموں یعنی جلوس وغیرہ میں شرکت کرنا۔

مزید تفصیل کے لیے حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ؒکی اصلاح الرسوم اور حضرت مولانا مفتی سید عبد الکریم گمتھلویؒ کے "بارہ مہینوں کے فضائل واحکام "  کا  مطالعہ مفید رہے گا۔

قرآن ِکریم میں ہے:

"اِنَّ عِدَّةَ الشُّهُوْرِ عِنْدَ اللّٰهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِیْ كِتٰبِ اللّٰهِ یَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ مِنْهَا اَرْبَعَةٌ حُرُمٌ(سورۃ التوبہ:36)

ترجمہ : ’’یقینًا شمار مہینوں کا (جوکہ) کتابِ الٰہی میں اللہ کے نزدیک (معتبر ہیں) بارہ مہینے (قمری)ہیں جس روز اللہ تعالیٰ نے آسمان اور زمین پیدا کیے تھے (اسی روز سے اور) ان میں چار خاص مہینے ادب کے ہیں ۔ ‘‘

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"وعن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه و سلم: " «أفضل الصيام بعد رمضان ‌شهر ‌الله ‌المحرم."

(کتاب الصوم، باب القضاء، الفصل الاول، 633/1، ط:المكتب الإسلامي بيروت)

ترجمہ :’’حضور ﷺکا ارشاد ہے کہ رمضان کے روزے کے بعد بہترین روزے اللہ کا مہینہ محرم ہے۔‘‘

فتاوی شامی میں ہے:

و حديث التوسعة على العيال يوم عاشوراءصحيح

"مطلب في حديث التوسعة على العيال و الاكتحال يوم عاشوراء (قوله: و حديث التوسعة إلخ) و هو «من وسع على عياله يوم عاشوراء وسع الله عليه السنة كلها» قال جابر: جربته أربعين عامًا فلم يتخلف ... و إنما الروافض لما ابتدعوا إقامة المأتم وإظهار الحزن يوم عاشوراء لكون الحسين قتل فيه ابتدع جهلة أهل السنة إظهار السرور و اتخاذ الحبوب و الأطعمة و الاكتحال."

(کتاب الصوم، باب مایفسد الصوم ومالایفسدہ، 418/2، ط:دار الفکر)

کفایت المفتی میں ہے:

’’محرم میں کھچڑا پکانے کی کوئی سند نہیں،یہ بالکل بے اصل ہے ،البتہ عاشوراء کے دن روزہ رکھنا اور اہل وعیال پر رزق یعنی کھانے پینے کی اس روز فراخی کرنا مسنون ہے ،البتہ سرمہ لگانے کی روایت ضعیف ہے ،بعضوں نے موضوع بھی کہا ہے ،نیاکپڑا پہننے کی کوئی روایت نہیں ،اور جو کام کہ روافض کرتے ہیں ان میں ان کی مشابہت  اہل سنت کونہ کرنی چاہیے‘‘۔

(کتاب العقائد ، دس محرم کوکھچڑا پکانا ، شربت پلانا ،نیاکپڑاپہننا اور سرمہ لگانا بے اصل ہے،  235/1، ط:دار الاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144601100553

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں