بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 ذو الحجة 1445ھ 01 جولائی 2024 ء

دارالافتاء

 

مہتمم کے ساتھ جو معاہدہ ہو اس کی پابندی ضروری ہے


سوال

آج کل ہمارےمدرسوں میں یہ دیکھاجاتاہےکہ اساتذہ چوبیس گھنٹہ احاطہ مدارس میں رہتےہیں ،انہیں کسی اورجگہ سےکمانےکی کوئی صورت نہیں ہوتی، بلکہ ان پرپابندی ہے، یہاں تنخواہ بہت کم ہےجس سےگھرنہیں چلتے کیوں کہ ایک توتنخواہ کم دوسرا وہ بھی تین چارمہینہ کسی جگہ توآٹھ بلکہ سال بھرباقی رہتی ہے، بہت سارےعلماءنےپوچھاہےکہ اس کاحل کیاہے کہ ہم تومدرسہ چھوڑ نہیں سکتے، کیوں کہ ماحول ایسابن گیاہےکہ ہم بھی اورلوگ بھی سمجھتےہیں کہ مدرسہ چھوڑناہلاکت ہے، یہاں مدرسہ میں رہنابھی بہت مشکل ہو گیا ہے ، کیوں کہ گھرنہیں چل رہے، یہ حالت کسی کوبتابھی نہیں سکتےبتاتے ہیں تو کہا جاتا ہےکہ اخلاص نہیں ہے کام میں، اس لیے ایسا ہو رہا  ہے،  اب اس کاحل کیاہے؟ یانوجوان علماءکوایسی حالت میں کیاکرناچاہیے؟ 

جواب

واضح رہے کہ مدرسہ کے ساتھ جو معاہدہ طے پایا ہے اس کی خلاف ورزی کرنا جائز نہیں ہے،لہذا  اگر معاہدہ مدرسہ میں چوبیس گھنٹہ رہنے کا ہوا ہے تو پورا وقت دینا لازم ہوگا اور اگر تنخواہ پر گزارا نہیں ہورہا تو مذکورہ مدرسہ چھوڑ کر کسی اور مدرسہ میں خدمت میں سر انجام دیں، نیز مہتمم کو بھی  چاہیے کہ اگر وہ گزربسر کے بقدر مشاہرہ نہیں دے پاتے تو اساتذہ سے مکمل وقت نہ لے، تاکہ وہ مدرسہ کے اوقات کے علاوہ دیگر اوقات میں کوئی اور ذریعہ معاش اختیار کرسکیں۔

الدر  المختار میں ہے:

"(والثاني) وهو ‌الأجير (‌الخاص) ويسمى أجير وحد (وهو من يعمل لواحد عملا مؤقتا بالتخصيص ويستحق الأجر بتسليم نفسه في المدة وإن لم يعمل كمن استؤجر شهرا للخدمة أو) شهرا (لرعي الغنم) المسمى بأجر مسمى.....وليس للخاص أن يعمل لغيره، ولو عمل نقص من أجرته بقدر ما عمل."

(کتاب الاجارۃ ، باب ضمان الاجیر جلد ۶ ص: ۶۹، ۷۰ ط: دارالفکر)

البحر الرائق میں ہے:

"قال - رحمه الله - (والخاص يستحق الأجر بتسليم نفسه في المدة وإن لم يعمل كمن استؤجر شهرا للخدمة أو لرعي الغنم) يعني الأجير الخاص يستحق الأجر بتسليم نفسه في المدة عمل أو لم يعمل .....وسمي الأجير خاصا وحده؛ لأنه يختص بالواحد وليس له أن يعمل لغيره؛ ولأن منافعه صارت مستحقة للغير والأجر مقابل بها فيستحقه ما لم يمنع مانع من العمل كالمرض والمطر ونحو ذلك مما يمنع التمكن."

کتاب الاجارۃ ، باب ضمان الاجیر جلد ۸ ص: ۳۳ ، ۳۴ ط: دارالکتاب الاسلامي)

فقط و اللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144403101681

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں