میں نے یہ ایگریمنٹ کیا تھا، پھر مجھ سے اس کی خلاف ورزی ہو گئی تو اب اس کا کیا حکم ہے؟ طلاق کے بارے میں ایگریمنٹ کے الفاظ یہ ہیں: میں وعدہ کرتا ہوں کہ آپ کے زیرِ انتظام اکیڈمی میں حلال رزق کی نیت سے کام کروں گااور عبادت سمجھ کر باوضو ہوکر کلاس لوں گا ، وقت کی پابندی ضرور کروں گا، جس دن کسی مجبوری کی وجہ سے چھٹی کرنی پڑے تو قبل از وقت اطلاع ضرور کروں گا ، جب بھی کسی شرعی عذر کی وجہ سے اکیڈمی چھوڑنے کا ارادہ ہو تو دو ماہ قبل آگاہ کروں گا، اس اکیڈمی کے کسی بھی اسٹوڈنٹ کے ساتھ کوئی بھی ایسا رابطہ جو اس اکیڈمی کے اصول و قوانین کے خلاف اور انتظامیہ سے مخفی ہو، ( مثلا اسٹوڈنٹس سے رابطہ نمبر لیا، ای میل ایڈریس وغیر ہ لینا یا کوئی اور رابطہ آئی ڈی لینا اور دینا کسی طالب علم کو اپنی پرسنل اسکائپ آئی ڈی میں شامل کرنا، کسی اسٹوڈنٹ سے ریفرنس دینا یا لینا، یہاں سے کسی طالب علم کے بارے میں معلومات باہرکسی بندہ کو دینا وغیرہ ومذکورہ امور میں سے کوئی کام نہیں کروں گا، مذکورہ شق میں ذکر کردہ تمام امور اپنے کسی بھائی عزیز یا دوست وغیرہ کے ذریعے بھی کرنے کی کوشش نہیں کروں گا، اور نہ ہی کسی اور کو اس کا موقع فراہم کروں گا، اگر میں ان شقوں کی خلاف ورزی کروں تو مجھ پر کلما کی طلاق (چاہے نکاح خود کروں یا فضولی کی صورت میں ہو یا کسی کو وکیل بنا کر کروں، الغرض میری بیوی موجودہ ہو یا آئندہ ہونے والی ہر صورت طلاق) اور ادارے والوں کو میرے خلاف قانونی چارہ جوئی کا حق بھی حاصل ہو گا۔
واضح رہے کہ لفظ ِ کلما شرط و جزاء کے لیے استعمال ہوتا ہے ،اور یہ اس وقت عمل کرتاہےجب اس کے ساتھ شرط وجزاء ذکر کی جائیں جیسےکوئی شخص یہ کہے " کلما تزوجت فھی طالق " یعنی جب جب میں نکاح کروں تو اس کو طلاق ،تو اس صورت میں یہ شخص جب بھی نکاح کرے گا تو اس عورت پر طلاق واقع ہوجائےگی ،اور اگر کلما کے ساتھ ان میں سے کوئی ایک چیز بھی ذکر نہ کی گئی تو یہ لفظ عمل نہیں کرے گا ،لہذا صرف کلما کی طلاق بغیر شرط کے ذکر کے ادھورا جملہ ہے۔
صورتِ مسئولہ میں سائل نے اکیڈمی والوں سے مذکورہ شق پر کلما طلاق کے ساتھ معاہدہ کیا تھا یعنی جب بھی میں مذکورہ باتوں کی خلاف ورزی کروں گا،تو مجھ پر کلما کی طلاق (چاہے نکاح خود کروں یا فضولی کی صورت میں ہو یا کسی کو وکیل بنا کر کروں، الغرض میری بیوی موجودہ ہو یا آئندہ ہونے والی ہر صورت طلاق) اور سائل سے مذکورہ معاہدہ کی خلاف ورزی ہوچکی ہے، اگر سائل شادی شدہ ہے تو سائل کی بیوی پر لفظ طلاق سے ایک طلاق رجعی واقع ہوچکی ہے،سائل عدت( تین ماہواری اگر بیوی حاملہ نہ ہو یا وضع حمل اگر بیوی حاملہ ہو) کے دوران رجوع کرسکتا ہے، اگر شادی شدہ نہیں ہے تو کسی بھی صورت(خود نکاح کرے یا فضولی نکاح کرے یا کسی کو وکیل بنا کر نکاح کرے)میں نکاح کرنے کے ساتھ ہی سائل کی بیوی پر ایک طلاق بائن واقع ہوجائے گی،سائل اپنی اس بیوی کے ساتھ دوبارہ نکاح شرعی گواہوں کی موجودگی میں نئے مہر کے ساتھ کرسکتا ہے، اس کے بعد سائل کے پاس دو طلاقوں کا اختیار باقی ہوگا،یہ اس صورت میں ہے کہ جب سائل نے اس سے پہلے طلاق نہ دی ہو ، اس کے بعد مزید خلاف ورزی سے مزید کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی۔
فتاوی شامی میں ہے:
"قال في [نور العين] الظاهر أنه لا يصح اليمين لما في البزازية من كتاب ألفاظ الكفر: إنه قد اشتهر في رساتيق شروان أن من قال جعلت كلما أو علي كلما أنه طلاق ثلاث معلق، وهذا باطل ومن هذيانات العوام. فتأمل."
(كتاب الطلاق، باب صريح الطلاق، 247/3، ط: سعید)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"إذا طلق الرجل امرأته ثلاثا قبل الدخول بها وقعن عليها فإن فرق الطلاق بانت بالأولى ولم تقع الثانية والثالثة."
(كتاب الطلاق، الباب الثاني، الفصل الرابع، 373/1، ط: داراالفکر)
وفيه ايضاً:
"إنه عندنا يحل لقيام ملك النكاح من كل وجه، وإنما يزول عند انقضاء العدة فيكون الحل قائما قبل انقضائها."
(كتاب الطلاق، الباب السادس في الرجعة وفيما تحل به المطلقة وما يتصل به، 470/1، ط: دارالفکر)
وفيه ايضاً:
"إذا طلق الرجل امرأته طلاقا بائنا أو رجعيا أو ثلاثا أو وقعت الفرقة بينهما بغير طلاق وهي حرة ممن تحيض فعدتها ثلاثة أقراء سواء كانت الحرة مسلمة أو كتابية كذا في السراج الوهاج...وعدة الحامل أن تضع حملها كذا في الكافي."
(كتاب الطلاق، الباب الثالث عشر، 526/1۔528، ط: دارالفکر)
المبسوط للسرخسی میں ہے:
"ولو تزوجها قبل التزوج أو قبل إصابة الزوج الثاني كانت عنده بما بقي من التطليقات."
(كتاب الطلاق، باب من الطلاق، 95/6، ط: دار المعرفة)
فتاوی مفتی محمود میں ہے:
"اگر الفاظ صرف اتنے ہی کہے ہیں کہ اگر میں نے چوری کی تو میری عورت کو کلما کی طلاق ہے تو اس صورت میں ایک دفعہ چوری کرنے کے بعد اس کی بیوی پر ایک طلاق رجعی واقع ہو گئی ہے اور اس سے وہ یمین (قسم)ختم ہو گئی ہے، دوسری دفعہ چوری کرنے سے کوئی طلاق واقع نہ ہوگی ، نیز ہر یمین طلاق اس کی اس یمین کے وقت کی منکوحہ عورت سے متعلق ہے، اس کے بعد نکاح میں آنے والی عورت سے اس قسم کا کوئی تعلق نہ ہو گا، وجہ اس کی یہ ہے کہ اس نے تو لفظ ” میری عورت بولا ہے،جو اس وقت کی منکوحہ پر صادق آتا ہے، نیز کلما کا کوئی معنی ہی نہ ہوگا اور ان الفاظ کا مطلب یہ ہوگا کہ اگر میں نے چوری کی تو میری عورت کو طلاق ہے اور ان الفاظ سے وجود شرط کے بعد موجودہ منکوحہ پر صرف ایک ہی طلاق رجعی واقع ہوتی ہے۔"
(کتاب الطلاق، آٹھویں باب، ج: 7، : 250، ط: جمعیۃ کمپوزنگ)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144603102843
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن