بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

منبہات نامی کتاب میں مذکور طویل روایت ’’مجھے تین چیزیں پسند ہیں‘‘ کی تحقیق


سوال

 میرے علم کے مطابق ایک حدیث میں آیا ہے کہ:

ایک دفعہ ایک مجلس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:«حبب إلي من دنیا كم ثلاث: الطیب و النساء و جعلت قرة عیني في الصلوة».  مجھے تمھاری دنیا میں سے تین چیزیں پسند ہیں: (۱)خوشبو (۲)بیویاں (۳)اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں رکھی گئی ہے۔ آپ کےساتھ صحابۂ کرام بھی بیٹھے ہوئے تھے تو ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یا رسول اللہ! آپ نے سچ فرمایا اور مجھے دنیا میں سے تین چیزیں پسند ہیں: (۱)رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے چہرے کو دیکھنا (۲)رسول اللہ کے لیے اپنا مال خرچ کرنا (۳)اور یہ چاہنا کہ میری بیٹی، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی بیوی بنے۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے ابوبکر! آپ نے سچ فرمایا اور مجھے دنیا میں سے تین چیزیں پسند ہیں: (۱)نیکی کا حکم دینا (۲)برائی سے منع کرنا (۳)اور پرانا (استعمال شدہ بوسیدہ) کپڑا۔ پھر عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے عمر! آپ نے سچ فرمایا اور مجھے دنیا میں سے تین چیزیں پسند ہیں: (۱)بھوکوں کو پیٹ بھر کر کھلانا (۲)ننگوں کو کپڑے پہنانا (۳) اور تلاوتِ قرآن۔ پھر علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے عثمان! آپ نے سچ فرمایا اور مجھے دنیا میں سے تین چیزیں پسند ہیں: (۱)مہمان کی خدمت کرنا (۲)گرمی میں روزے رکھنا (۳)اور (میدانِ جہاد میں) تلوار چلانا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ  اسی حال میں تھے کہ جبریل (علیہ السلام) تشریف لائے اور فرمایا: جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے تمھاری گفتگو سنی تو مجھے بھیجا اور آپ کو حکم دیا کہ مجھ سے پوچھیں کہ اگر میں دنیا والوں میں سے ہوتا تو میں کیا پسند کرتا؟ آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا: تم دنیا میں سے کیا پسند کرتے؟ جبریل(علیہ السلام) نے فرمایا: (۱)راستہ بھولے ہوئے لوگوں کو راستہ دکھانا (۲)غریب عبادت گزاروں کی دل جوئی (۳)اور مفلس عیال داروں کی مدد۔ جبریل (علیہ السلام) نےفرمایا: رب العزت اللہ جل جلالہ اپنے بندوں سے تین خصلتیں پسند کرتا ہے: (۱)حسب استطاعت (اللہ کےر استے میں مال و جان) خرچ کرنا (۲)ندامت کے وقت رونا (۳)اور فاقے کے وقت صبر کرنا۔ (بحوالہ منبہات لابن حجر)

گزارش ہے کہ اس حدیث کی مکمل تحقیق و تخریج عنایت فرما دیں۔

جواب

روایت میں مذکور   ابتدائی حصہ ’’حبُب إلي من دنياكم الطیب و النساء و جعلت قرة عیني في الصلاة‘‘ تو  صحیح روایات سے ثابت ہے، البتہ اُس میں بھی تین کے عدد کا ذکر نہیں ہے،  چنانچہ ’’مسند احمد ‘‘ میں ہے: 

" عَنْ أَنَسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: حُبِّبَ إِلَيَّ مِنَ الدُّنْيَا: النِّسَاءُ، وَالطِّيبُ، وَجُعِلَ قُرَّةُ عَيْنِي فِي الصَّلَاةِ . "

(مسند أحمد، (19/ 307)، برقم (12294)، ط/ مؤسسة الرسالة)

ليكن  روايت میں مذکور بقیہ حصہ  بطورِ حدیث  کسی مستند سند سے ثابت نہیں ، صرف حافظ ابن حجر  عسقلانی  ؒ کی جانب منسوب ’’المنبِّهات‘‘ المعروف به ’’الاستعداد لیوم المعاد‘‘ نامی کتاب میں بغیر کسی سند کے بطورِ حدیث مذکور ہے ، جو کہ روایت کے مستند ہونے کے لیے کافی نہیں ، لہذا روایت کے بقیہ اس حصہ کو جو کہ مستند طریق سے ثابت نہیں ، اسے بطورِ حدیث بیان کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔

(المنبهات، باب الثلاثي، (32 - 34)، ط/ مؤسسة المعارف، بيروت)

منبہاتِ ابن حجر ؒ میں مذکور احادیث کس درجہ کی ہیں؟

واضح رہے کہ ’’منبہات‘‘ نامی کتاب جس کی نسبت ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ کی طرف کی جاتی ہے، محققین نےان کی طرف مذکورہ کتاب کی  نسبت کا  چند  وجوہ  کی بنا پر انکار کیا ہے:

1۔ حافظ الحدیث امام سخاوی رحمہ نے اپنی تصنیف  الجواهر و الدرر (ص: ٦٦٠- ٦٩٥) میں ابن حجر رحمہ اللہ کی 273 تصانیف ذکر کی ہیں،  مگر ان کتب میں"المنبهات علی الاستعداد لیوم المعاد للنصح و الوداد "  کو شامل نہیں کیا ہے۔

2۔ المنبہات کے اکثر قلمی نسخوں پر مؤلف کا نام نہیں ملتا ہے۔

3۔ مذکورہ کتاب  ابن حجر رحمہ اللہ کے اسلوب اور احادیث جمع کرنے کے منہج کے خلاف ہے۔

4۔  ابن حجر رحمہ اللہ کے  تلامذہ سے بھی منقول نہیں۔

لہذا  مذکورہ کتاب کی احادیث کے معتبر ہونے کے لیے ضروری ہے کہ کسی اور مستند احادیث کی کتب میں بھی موجود ہوں، تحقیق کے بغیر اس کتاب کی احادیث پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144205200689

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں