بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 ذو الحجة 1445ھ 01 جولائی 2024 ء

دارالافتاء

 

مجھے تمہاری بیٹی کی ضرورت نہیں سے طلاق واقع ہونے کا حکم


سوال

 ایک شخص جس کی شادی ہوئےلمبا عرصہ ہوچکاہےاور اس کی بیٹی بھی ہے،اور اب چار سالوں سے بیرون ملک چلا گیاہے،اب کچھ عرصہ قبل اس نے اپنے سسر کو  فون کیا،حال احوال پوچھنے کے بعد کہاکہ میری بھتیجی جو کہ میرے بدلہ میں ہے،تم لوگ اس کی شادی کرارہےہو،حالاں کہ وہ بہت چھوٹی عمر کی ہے،تو اس کے سسر نے کہا کہ نہیں اس کی عمر شادی کی ہوچکی ہے،اور تمہارے گھر والے بھی راضی ہیں،اس بات کےدوران وہ لڑکا اپنے سسر کو کہتاہےکہ تم لوگ جانو تمہارا کام جانے،مجھے تمہاری بیٹی کی کوئی ضرورت نہیں ،اپنے پاس رکھ لو، اوریہ جملہ تین دفعہ دہرایا ہےاور ان باتوں کی فون ریکارڈنگ موجود ہے،اب پوچھنایہ ہےکہ اس جملہ کا کیا حکم ہے؟اور اگر الفاظ کنائی ہیں،جس کی وجہ سے نیت کی ضرورت ہے،تو اب وہ لڑکا دوبارہ فون نہیں اٹھارہااور لڑکی کا بھائی کہتاہےکہ مجھے بھی اس نے فون کیا تھااور کہا تھاکہ تمہاری بہن جو میری بیوی ہے اس کو طلاق ہے،لیکن لڑکی کا بھائی کہتاہےکہ میرے پاس اس کو ثابت کرنے کے لیے کوئی ثبوت نہیں،سوائے اس بات کے کہ میں قسم کھانے کو تیار ہوں کہ اس نے مجھے فون کیاتھااور کہاتھاکہ تمہاری بہن کو طلاق ہے،اب اس کا کیا حکم ہے ،کیا قسم کھانے سے اس کی بات کا اعتبار ہوگا یا نہیں؟

وضاحت: لڑکی اپنے بھائی کی اس بات کہ اس کے شوہر نے اس کو فون کرکے کہاتھاکہ تمہاری بہن جو میری بیوی ہے اس کو طلاق ہے،کی تصدیق کرتی ہے۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ شخص نے اپنے سسر سے جو یہ کہا کہ تم لوگ جانو تمہارا کام جانے،مجھے تمہاری بیٹی کی ضرورت نہیں ،اپنے پاس رکھ لو،تو اس جملے سے مذکورہ شخص کی بیوی پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی ،کیوں کہ یہ جملہ نہ طلاق میں صریح ہے اور نہ کنایہ،لہذا طلاق کی نیت کے باوجود بھی اس جملے کے کہنے سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی۔

صورتِ مسئولہ میں  مذکورہ شخص کے سالے یعنی بیوی کے بھائی کابیان اگر  واقعۃً درست ہے کہ مجھے مذکورہ شخص یعنی بہنوئی نے فون کرکے یہ کہا کہ آپ کی بہن جو میری بیوی ہےاس کو طلاق ہے،تو اس سے مذکورہ شخص کی بیوی پر ایک طلاق رجعی واقع ہوچکی ہے،مذکورہ شخص کو عدت کے دوران رجوع کرنے کاحق حاصل ہے،اگر مذکورہ شخص    عدت کے دوران یعنی حمل نہ ہونے کی صورت میں  پوری تین ماہواریاں گزرنے سے پہلےاور حمل کی صورت میں بچے کی پیدائش سے پہلےپہلے  رجوع کرلیتا ہے ،تو نکاح حسبِ سابق برقرار رہے گا، اورآئندہ  کےلئےمذکورہ شخص   کو صرف دوطلاقوں کااختیار ہوگااور اگر مذکورہ شخص   نے عدت کے دوران رجوع نہیں کیا،تو نکاح  ختم ہوجائے گا،اور میاں  بیوی کےلئے ایک ساتھ رہناجائز نہیں ہوگا،اور مذکورہ شخص کی مطلقہ  اس وقت دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہوگی ،اور اگر اس کے بعد دوبارہ ساتھ رہنا ہوتو نئے سرے سے نئے مہر کے ساتھ گواہوں کی موجودگی میں تجدیدِ نکاح کرنا لازم ہوگا۔

لڑکی کے بھائی کا یہ کہناکہ میرے پاس اس بات کے ثبوت نہیں ،البتہ میں قسم کھانے کو تیار ہوں تو اس بارے میں حکم یہ ہےکہ جب لڑکی اپنے بھائی کے بیان کی تصدیق کرکے طلاق کا دعوی کرے اور لڑکی کا شوہر اپنی بیوی  کی اس بات کا انکار نہیں کرتابلکہ اس کو مانتاہےتو اس صورت میں ثبوت  پیش کرنے کی ضرورت ہی نہیں،بلکہ ایک طلاق رجعی شوہر کے اس کہنے سے ہی واقع ہوچکی ہے،اور  شوہر اپنی بیوی  کی اس بات کا انکار کرتاہےتو اس صورت میں اس لڑکی  کے ذمہ گواہوں کو پیش کرنا ہوگا،اور اگر اس کے پاس گواہ نہ ہوں تو اس کے شوہر پر قسم آئے گی،اگر وہ قسم کھالے تو اس کی بیوی پر یہ ایک طلاق بھی واقع نہیں ہوگی،اور اگر وہ قسم سے انکار کردے تواس لڑکی  کی بات ثابت ہوکر اس پر ایک طلاق رجعی واقع ہوجائے گی،اور لڑکی یا اس کے بھائی کے ذمہ قسم اٹھانا نہیں ،بلکہ اپنے دعوی کے ثبوت کے لیے گواہ پیش کرنا اس کے ذمہ ہے۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"ولو قال: لا حاجة لي فيك لا يقع الطلاق وإن نوى؛ لأن عدم الحاجة لا يدل على عدم الزوجية فإن الإنسان قد يتزوج بمن لا حاجة له إلى تزوجها فلم يكن ذلك دليلا على انتفاء النكاح فلم يكن محتملا للطلاق."

(كتاب الطلاق،فصل في الكناية في الطلاق،107/3،ط:دار الكتب العلمية)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ولو قال لا حاجة لي فيك ينوي الطلاق فليس بطلاق."

(كتاب الطلاق،الفصل الخامس في الكنايات،375/1،ط:رشيدية)

وفيه أيضا:

"إن سمى امرأته باسمها وباسم أبيها بأن قال امرأتي عمرة بنت صبيح بن فلان أو قال أم هذا الرجل التي في وجهها الخال طالق طلقت امرأته سواء كان في وجهها الخال أو لم يكن كذا في المحيط. وكذا لو قال امرأتي بنت صبيح أو بنت فلان التي في وجهها خال طالق ولم يكن بها خال طلقت كذا في محيط السرخسي."

(كتاب الطلاق،الباب الأول في إيقاع الطلاق،الفصل الأول في الطلاق الصريح،359/1،ط:رشيدية)

فتاوی شامی میں ہے:

"(واليمين لا ترد على مدع) لحديث «البينة على المدعي» وحديث الشاهد واليمين ضعيف، بل رده ابن معين، بل أنكره الراوي عيني."

(كتاب الدعوي،سبب الدعوي،549/5،ط:سعيد)

درر الحکام شرح غرر الاحکام  میں ہے:

"(وتصح) أي الرجعة فيما دون الثلاث من طلقة وطلقتين وهذا في الحرة ...(وإن أبت) المرأة عن الرجعة فإن الأمر بالإمساك مطلق فيشمل التقادير.(وندب إعلامها) أي إعلام الزوج إياها بالرجعة لأنه لو لم يعلمها لربما تقع المرأة في المعصية ...(و) ندب (الإشهاد) أيضا احترازا عن التجاحد وعن الوقوع في مواقع التهم لأن الناس عرفوه مطلقا فيتهم بالقعود معها، و إن لم يشهد صحت."

(کتاب الطلاق،باب الرجعة،384/1 ،ط:داراحیاءالكتب العربية)

امداد الاحکام میں ہے:

"عمرو نے جولکھاہےکہ مجھ کو تمہاری لڑکی کی ضرورت نہیں ہےاس لفظ سے کوئی طلاق نہیں ہوئی۔"

(امداد الاحکام،کتاب الطلاق،،جلد دوم حصہ اول ،ص:406،ط:مکتبہ دار العلوم کراچی)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

"یہ لفظ کہ مجھے تیری ضرورت نہیں نہ صریح طلاق کا لفظ ہے اور نہ کنایہ کا،اس سے طلاق نہیں ہوتی۔"

(کتاب الطلاق،باب الطلاق بالفاظ الکنایہ،551/12،ط:فاروقیہ)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144311101403

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں