مجھے ایک مسئلہ درپیش ہے، جس میں رہنمائی درکار ہے۔ اگر کوئی شخص کسی کمپنی میں ملازمت کر رہا ہو اور کمپنی کا مالک اسے کسی انویسٹر کو لانے کے لیے کہے تاکہ وہ کمپنی میں سرمایہ کاری کرے، تو کیا وہ ملازم اس ڈیل میں اپنے لیے کوئی پرسنٹیج رکھ سکتا ہے ؟ اور کیا وہ مالک کو بتائے بغیر انویسٹر سے کمیشن یا کسی اور شکل میں معاوضہ وصول کر سکتا ہے جب کہ مالک نے واضح طور پر منع کیا ہوا ہے کہ ملازمین کسی بھی قسم کی شیئرنگ یا کمیشن نہیں لے سکتے، اور اس کے باوجود وہ ملازم انویسٹرسے کچھ وصول کرے، تو اس کی شرعی اور اخلاقی حیثیت کیا ہوگی؟ ایسی صورت میں اس کا کیا حکم اور اسی طرح اگر کوئی ملازم دفتر میں جان بوجھ کر کوئی غلط کام کرے، جیسےکہ پیسے ہڑپ کر لے یعنی مالی خیانت کر لےاور یہ سوچے کہ بعد میں مالک سے معافی مانگ لوں گا، تو اس کا کیا حکم ہوگا؟ خاص طور پر جب وہ شروع ہی سے اس نیت سے ایسا کرے کہ بعد میں محض معذرت کر کے بچ نکلوں گا۔
صورتِ مسئولہ میں کمپنی کے ملازم کے لیے اپنے مالک کوبتائےبغیر پرسنٹیج وصول کرناجائز نہیں ہے؛ کیوں کہ وہ اپنی کمپنی کی طرف سے وکیل ہے اور وکیل امین (امانت دار) ہوتا ہے جس کے ذمے تمام معاملات کی آگاہی اپنے مؤکل کو دینا ہوتی ہے۔ نیز وہ اپنے عمل کا معاوضہ اپنی اجرت کی صورت میں بھی لیتا ہے؛ لہذا اپنی کمپنی کی نمائندگی کی جو اجرت وہ پہلے سے لے رہا ہے، اس کے علاوہ پرسنٹیج ،شیئرنگ ،کمیشن یاکوئی اورمعاوضہ وصول کرنا جائزنہیں ہے۔
اور اسی طرح اگر کوئی ملازم دفتر میں جان بوجھ کر کوئی غلط کام کرے، جیسےکہ پیسے ہڑپ لے یعنی مالی خیانت کر لےاور یہ سوچے کہ بعد میں مالک سے معافی مانگ لوں گا،تویہ مال حرام ہے ایساکرناشرعا ناجائزاورباعث گناہ ہے۔
فتاوی شامی ہے:
"والحاصل أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، وإلا فإن علم عين الحرام لا يحل له ويتصدق به بنية صاحبه، وإن كان مالا مختلطا مجتمعا من الحرام ولا يعلم أربابه ولا شيئا منه بعينه حل له حكما، والأحسن ديانة التنزه عنه...ومفاده الحرمة وإن لم يعلم أربابه وينبغي تقييده بما إذا كان عين الحرام ليوافق ما نقلناه، إذ لو اختلط بحيث لا يتميز يملكه ملكا خبيثا، لكن لا يحل له التصرف فيه ما لم يؤد بدله."
(کتاب البیوع،باب البیع الفاسد، مطلب فيمن ورث مالا حراما، ج:5، ص:99، ط:سعید)
الفقہ الاسلامی وادلتہ للزحیلی میں ہے:
"1 - المال الحرام: هو كل مال حظر الشارع اقتناءه أو الانتفاع به سواء كان لحرمته لذاته، بما فيه من ضرر أو خبث كالميتة والخمر، أم لحرمته لغيره، لوقوع خلل في طريق اكتسابه، لأخذه من مالكه بغير إذنه كالغصب، أو لأخذه منه بأسلوب لا يقره الشرع ولو بالرضا كالربا والرشوة.
(زكاة المال الحرام، ج: 10، ص: 7945، ط: دار الفكر)
فتاوی محمودیہ میں ہے:
جس قدر مال بطریق حرام کمایا ، اس کی واپسی لازم ہے، اگر وہ شخص موجود نہ ہو جس سے مثلا مال حرام( مثلا رشوت یا غصب ) لیا ہو، مر گیا ہو تو اس کے ورثاء کو دیا جائے ۔ ورثاء بھی موجود نہ ہوں، یا کوشش کے باوجود ان کا علم نہ ہو سکے تو غر یوں محتاجوں کو صدقہ کر دیا جاۓ ، لیکن اس مال کے ذریعہ دوسرا حلال مال کمایا گیا تو اس کو حرام نہیں کیا جائے گا۔کذا فی رد المحتار۔"
(کتاب الحظر و الاباحۃ، باب المال الحرام و مصرفہ، ج:18، ص:408، ط:ادارۃ الفاروق)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144609100968
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن