ہمارے ادارے میں ویلفئیر فاؤنڈیشن ہے جو ملازمین سے ان کی رضامندی پر ماہانہ سو روپے کٹوتی کرتے ہیں اور اس کٹوتی کو سی ایف پی فنڈ نام دیا گیا ہے اور اس کے بدلے میں ملازمین کو بیٹی کی شادی کے موقع پر ایک لاکھ روپے بار بار دیتے ہیں اور میٹرک کے بعد بچوں کی تعلیم کے لیے بھی سالانہ رقم دیتے ہیں ،مختلف مواقع پر قرضہ بھی دیتے ہیں اور ریٹائرمنٹ پر ایک لاکھ روپے دیتے ہیں تو کیا شرعاً یہ اسکیم جائز ہے یا نہیں ؟راہ نمائی فرمائیں۔
صورتِ مسئولہ میں سائل کےادارہ میں قائم مذکورہ ویلفئرفاؤنڈیشن جوادارہ کےملازمین کی تنخواہوں سےان کی رضامندی سےماہانہ سوروپےکٹوتی کرتےہیں توشرعااس کٹوتی شدہ رقم کی حیثیت قرض کی ہےاور قرض کےبدلےجوبھی مشروط منافع یابدل میں کسی بھی قسم مشروط اضافی سہولیات ملےتووہ سودمیں داخل ہے۔
مذکورہ تفصیل کی روسےزیرنظرمسئلہ میں مذکورہ ماہانہ کٹوتی کےعوض جس قسم کی بھی مشروط رقم /منافع فاؤنڈیشن والےدیں گےاس کالیناشرعاجائزنہیں،صرف اصل کٹوتی شدہ رقم ہی لیناجائزہے،الغرض مذکورہ اسکیم سےفائدہ اٹھانااوراس میں شمولیت کرناجائزنہیں ہے۔
قرآن پاک میں اللہ کاارشادہے:
(اَلَّذِیْنَ یَاْكُلُوْنَ الرِّبٰوا لَا یَقُوْمُوْنَ اِلَّا كَمَا یَقُوْمُ الَّذِیْ یَتَخَبَّطُهُ الشَّیْطٰنُ مِنَ الْمَسِّؕ-ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ قَالُوْۤا اِنَّمَا الْبَیْعُ مِثْلُ الرِّبٰواۘ-وَ اَحَلَّ اللّٰهُ الْبَیْعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰواؕ-فَمَنْ جَآءَهٗ مَوْعِظَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖ فَانْتَهٰى فَلَهٗ مَا سَلَفَؕ-وَ اَمْرُهٗۤ اِلَى اللّٰهِؕ-وَ مَنْ عَادَ فَاُولٰٓىٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِۚ-هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْن یَمْحَقُ اللّٰهُ الرِّبٰوا وَ یُرْبِی الصَّدَقٰتِؕ-وَ اللّٰهُ لَا یُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ اَثِیْمٍ).
ترجمہ:اور جولوگ سود کھاتے ہیں، نہیں کھڑے ہوں گے (قیامت کے دن قبروں سے ) مگر جس طرح کھڑا ہوتا ہے ایسا شخص جس کو شیطان خبطی بنادے لپٹ کر ( یعنی حیران و مدہوش ) یہ (سزا) اسی لئے ہوگی کہ ان لوگوں نے کہا تھا کہ بیع بھی تو مثل سود کے ہے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے بیع کو حلال فرمایا ہے اور سود کو حرام کر دیا ہے۔ پھر جس شخص کو اس کے پروردگار کی طرف سے نصیحت پہنچی اور وہ باز آ گیا تو جو کچھ پہلے (لینا) ہو چکا ہے وہ اس کا رہا اور ( باطنی ) معاملہ اس کا خدا کے حوالے رہا اور جو شخص پھر عود کر لے تو یہ لوگ دوزخ میں جائیں گے وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ اللہ تعالی سود کو مٹاتے ہیں اور صدقات کو بڑھاتے ہیں اور اللہ پسند نہیں کرتے کسی کفر کرنے والے کو ( اور ) کسی گناہ کےکام کرنے والے کو۔(بیان القرآن)
نیزدوسری جگہ ارشادہے:
﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ ة فَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ ۖ وَإِن تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ﴾
ترجمہ: اے ایمان والوں اللہ سے ڈرو اور جو کچھ سود کا بقایا ہے اس کو چھوڑ دو۔ اگر تم ایمان والے ہو، پھر اگر تم اس پر عمل نہ کرو گے تو اشتہا رسن لو جنگ کا اللہ کی طرف سے اور اس کے رسول کی طرف سے ( یعنی تم پر جہاد ہوگا ) او را گر تم تو بہ کر لو گے تو تم کو تمہارے اصل اموال مل جائیں گے۔ نہ تم کسی پر ظلم کرنےپاوگےاورنہ کوئی تم پرکوئی ظلم کرنے پائے گا۔(بیان القرآن)
مرقات المفاتیح،شرح مشکاۃ المصابیح میں ہے:
"عن جابر رضي الله عنه قال: لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم آكل الربا وموكله وكاتبه وشاهديه، وقال: (هم سواء).
ترجمہ:حضرت جابررضی اللہ عنہ سےمروی ہےکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےسودلینےوالےپر،سوددینےوالےپر،سودی لین دین کاکاغذلکھنےوالےپراوراس کے گواہوں پر،سب پرلعنت فرمائی ہے، نیزآپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایاکہ یہ سب (اصل گناہ میں )برابرہیں(اگرچہ مقدارکےاعتبارسےمختلف ہوں(مظاہرِحق)۔
(عن جابر قال: لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم آكل الربا ) ، أي: آخذه وإن لم يأكل، وإنما خص بالأكل لأنه أعظم أنواع الانتفاع كما قال - تعالى: {إن الذين يأكلون أموال اليتامى ظلما} (ومؤكله) : بهمزة ويبدل أي: معطيه لمن يأخذه، وإن لم يأكل منه نظرا إلى أن الأكل هو الأغلب أو الأعظم كما تقدم، قال الخطابي: سوى رسول الله صلى الله عليه وسلم بين آكل الربا وموكله، إذ كل لا يتوصل إلى أكله إلا بمعاونته ومشاركته إياه، فهما شريكان في الإثم كما كانا شريكين في الفعل، وإن كان أحدهما مغتبطا بفعله لم يستفضله من البيع، والآخر منهضما لما يلحقه من النقص، ولله عز وجل حدود فلا تتجاوز وقت الوجود من الربح والعدم وعند العسر واليسر، والضرورة لا تلحقه بوجه في أن يوكله الربا، لأنه قد يجد السبيل إلى أن يتوصل إلى حاجة بوجه من وجوه المعاملة والمبايعة ونحوها قال الطيبي رحمه الله: لعل هذا الاضطرار يلحق بموكل فينبغي أن يحترز عن صريح الربا فيثبت بوجه من وجوه المبايعة لقوله - تعالى: {وأحل الله البيع وحرم الربا} لكن مع وجل وخوف شديد عسى الله أن يتجاوز عنه ولا كذلك الآكل (وكاتبه وشاهديه) : قال النووي: فيه تصريح بتحريم كتابة المترابيين والشهادة عليهما وبتحريم الإعانة على الباطل (وقال) ، أي: النبي صلى الله عليه وسلم (هم سواء) ، أي: في أصل الإثم، وإن كانوا مختلفين في قدره (رواه مسلم) وأخرجه هو أيضا وأبو داود والترمذي وابن ماجه من حديث ابن مسعود. ولم يذكر مسلم عنه سوى " آكل الربا وموكله " وروى الطبراني عنه ولفظه: " لعن الله الربا وآكله وموكله وكاتبه وشاهده وهم يعلمون."
(كتاب البيوع، باب الربوا، ج:5، ص:1915، ط:دار الفكر)
البحر الرائق میں ہے:
"ولا يجوز قرض جر نفعا بأن أقرضه دراهم مكسرة بشرط رد صحيحة أو أقرضه طعاما في مكان بشرط رده في مكان آخر فإن قضاه أجود بلا شرط جاز، ويجبر الدائن على قبول الأجود، وقيل لا كذا في المحيط، وفي الخلاصة القرض بالشرط حرام، والشرط ليس بلازم بأن يقرض على أن يكتب إلى بلد كذا حتى يوفي دينه۔۔۔وفي المحيط، ولا بأس بهدية من عليه القرض، والأفضل أن يتورع إذا علم أنه إنما يعطيه لأجل القرض أو أشكل فإن علم أنه يعطيه لا لأجل القرض بل لقرابة أو صداقة بينهما لا يتورع، وكذا لو كان المستقرض معروفا بالجود، والسخاء جاز."
(فصل في بيان تصرف في المبيع والثمن قبل قبضه،ج:6،ص:133،ط:دارالكتاب الاسلامي)
الاشباہ والنظائرمیں ہے:
"كل قرض جر نفعا حرام فكره للمرتهن سكنى المرهونة بإذن الراهن كما في الظهيرية وما روي عن الإمام أنه كان لا يقف في ظل جدار مديونه."
(کتاب المداینات،باب کل قرض جرنفعاً،ص:226،ط:دار الكتب العلمية، بيروت - لبنان)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144604101625
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن