خانہ کعبہ میں ملتزم کا حصہ کون سا کہلاتا ہے؟ نیز ملتزم کی فضیلت کے بارے میں کوئی حدیث وارد ہوئی ہے ؟
بیت اللہ شریف کا وہ حصہ ، جو حجرِ اسود اور بابِ کعبہ کے درمیان ہے، ملتزم کہلاتا ہے، اور اس کی فضیلت یہ ہے کہ اس مقام پر خاص طور سے دعا قبول ہوتی ہے ،مسنون یہ ہے کہ طواف سے فارغ ہو کر ملتزم پر جائے، اور اس جگہ کی دیوارِ کعبہ پر اپنے دونوں ہاتھوں کو لمبا کرکے سر کے اوپر سیدھے بچھا دے، سینہ دیوار سے ملا دے ، رخسار کو بھی دیوار کے ساتھ رکھے اور خشوع و خضوع کے ساتھ خوب گڑگڑا کر دعا مانگے۔البتہ اس بات کا یقین کرلیا جائے کہ یہ عمل دوسروں کے لیے تکلیف اور ایذا کا باعث نہ بنے۔ نیز ملتزم پر خوشبو لگی ہو تو احرام کی حالت میں اس سے نہ چمٹے۔
ایک حدیث میں ہے:
"وروي عن ابن عباس، أنه كان يقول: ما بين الركن والباب يدعى الملتزم، لا يلزم ما بينهما أحد يسأل الله شيئا إلا أعطاه."
(شرح السنة، باب فضل الطواف، ج: 7، ص:130، ط: المكتب الاسلامي)
"حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حجرِ اسود اور بابِ کعبہ کے درمیان جگہ کو ملتزم کہا جاتاہے، اس مقام پر چمٹ کر اللہ سے جو مانگا جائے ، اللہ ضرور عطا فرماتے ہیں۔"
ایک اور حدیث میں ہے:
"عن عمرو بنِ شعيبٍ، عن أبيه قال:طفت مع عبد الله، فلما جئنا دُبُرَ الكعبةِ قلتُ: ألا تتعوَّذ، قال: نعوذُ بالله من النار، ثم مضى حتى استلَم الحجر، وأقامَ بين الركنِ والبابِ، فوضع صدرَه، ووجهه، وذِراعيهِ، وكفيه هكذا، وبسَطهما بسطاً، ثم قال: هكذا رأيتُ رسولَ الله صلى الله عليه وسلم يفعله."
(سنن ابي داود، کتاب المناسک، باب الملتزم، ج:3، ص:278، ط: دار الرسالة العالمية)
"عمرو بن شعیب اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمرو کے ساتھ طواف کیا، جب ہم کعبہ کے پیچھے کی جانب آئے تو میں نے کہا: کیا آپ تعوذ نہیں کرتے ۔ انہوں نے کہا ہم اللہ کی پناہ طلب کرتے ہیں دوزخ سے، پھر چلتے آئے حتی کہ حجر اسود کا استلام کیا، حجر اسود اور دروازے کے درمیان رک گئے، پھر اپنا سینہ اور چہرہ اس پر رکھا، اپنی کلائیوں اور ہاتھوں کو اس طرح کیا اور انہیں خوب پھیلایا، پھر کہا، میں نے رسول اللہ ﷺ کو اس طرح کرتے دیکھا ہے۔ "(الدر المنضود)
فتح القدیر میں ہے:
"(ثم يأتي الملتزم، وهو ما بين الحجر إلى الباب فيضع صدره ووجهه عليه ويتشبث بالأستار ساعة ثم يعود إلى أهله)هكذا روي أن النبي عليه الصلاة والسلام فعل بالملتزم ذلك،
وأما تعيين محل الملتزم فأسند البيهقي في شعب الإيمان عن ابن عباس رضي الله عنهما عنه صلى الله عليه وسلم قال «ما بين الركن والباب ملتزم» وأخرجه ابن عدي في الكامل عن عباد بن كثير عن أيوب عن عكرمة عن ابن عباس رضي الله عنهما مرفوعا، ووقفه عبد الرزاق قال: حدثنا ابن عيينة عن عبد الكريم الجزري عن مجاهد قال: قال ابن عباس: هذا الملتزم ما بين الركن والباب، وكذا هو في الموطإ بلاغا، ولمثله حكم المرفوع لعدم استقلال العقل به، هذا والملتزم من الأماكن التي يستجاب فيها الدعاء نقل ذلك عن ابن عباس رضي الله عنهما عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: فوالله ما دعوت قط إلا أجابني."
(باب الاحرام، فصل في فضل ماء زمزم، ج:2، ص:506، ط: دار الفكر)
غنیۃ الناسک میں ہے:
"ثم يأتى الملتزم ويتشبث بالأستار ساعة يقرب الحجر وصفة التزامه أن يضع صدره، وبطنه وخده الأيمن أو جبهته عليه، ويتشبث بأستار الكعبة إن كانت قريبة بحيث ينالها، وإلا وضع يديه فوق رأسه مبسوطتين على الجدار قائمتين، وقيل : يبسط يده اليمنى مما يلى الباب واليسرى مما يلى الحجر داعيا بما أحب بالتضرع والابتهال مع الخضوع والانكسار مجتهدا باكيا أو متباكيا مكبرا مهللا مصليا على النبي المختار ، ومن المأثور هنا : يا واجد يا ماجد لا تزل عنى نعمة أنعمت بها على ، ثم يسن أن يعود إلى الحجر فيستلمه إن استطاع، وإلا وقف بحذائه مستقبلا له، وفعل ما مر ، ثم يخرج إلى الصفا فيسعى."
(باب دخول مكة وحرمها، فصل في الأخذ فی الطواف و کیفیة أدائه ص:107،ط: ادارة القرآن والعلوم الاسلاميه)
موسوعہ فقہیہ کویتیہ میں ہے:
"وفي الاصطلاح: الملتزم ما بين الركن الذي به الحجر الأسود إلى باب الكعبة من حائط الكعبة المشرفة، وعرضه علو أربعة أذرع، وقال الرحيباني: مساحته قدر أربعة أذرع بذراع اليد.
وسمي بذلك لأن النبي صلى الله عليه وسلم التزمه، و أخبر أن هناك ملكا يؤمن على الدعاء."
(ملتزم، ج:39، ص:26، ط: دار السلاسل)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144511101254
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن