بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

منہ دکھائی پر دیے جانے والے زیورات کا حکم


سوال

1۔میری بیٹی کو طلاق ہوگئی ہے،شوہر اور اس کے گھر والے جہیز وغیرہ کا سامان واپس کرنے کے لیے تیار ہیں،بیٹی کو منہ دکھائی پر کچھ زیور دیا گیا تھا ،جن میں سے کچھ ہم نے دیا تھا اور کچھ شوہر کے گھر والوں نے دیا تھا،جو ہم نے دیا تھا وہ تو ہمارےپاس ہے،شوہرکےگھر والوں نے جو زیور دیا تھا وہ ان کے پا س ہے،لڑکے والوں کے عرف ورواج کا ہمیں معلوم نہیں ہے،البتہ ہمارے خاندان کا عرف ورواج یہ ہے کہ لڑکی کو مالک بناکر دےدیتے ہیں،اب سوال یہ ہے کہ لڑکے والوں کے پاس جو زیورات ہیں وہ کس کی ملکیت ہوگی؟

2۔ لڑکے نے مہر میں ایک لاکھ روپے مقرر کیاتھا وہ ابھی تک ادا نہیں کیا ہے،آیا طلاق کے بعد وہ لڑکی کو ملےگا یا نہیں؟واضح رہے کہ طلاق دیتے وقت مہر کی کوئی بات نہیں ہوئی تھی؟نیز شوہر یہ کہے کہ جو زیور منہ دکھائی میں دیا تھا وہ مہر کے بدلہ میں تھا تو اس کاکیا حکم ہوگا؟

جواب

1۔ واضح رہے کہ جو سامان اور تحفے شادی کے موقع پرلڑکے والوں کی طرف سے لڑکی کو دیا  جاتا ہے، اسی طرح جو سونا منہ دکھائی یا کسی دوسرے عنوان سے دیا   جاتاہے وہ سب لڑکی کی ملکیت  ہوتی ہے،لہذاصورتِ مسئولہ میں آپ کی بیٹی کو اس کے سسرال والوں کی طرف سے منہ دکھائی پر جو زیورات دیے گئے تھےوہ آپ کی بیٹی کی  ملکیت ہے،لڑکے والوں کے ذمہ ان زیورات کو واپس کرنا ضروری ہے۔

2۔     نکاح کے وقت جو مہر مقرر ہوجائے وہ بیوی کا حق ہوتاہے، اور شوہر پر اس کا ادا کرنا واجب ہو تاہے ، چنانچہ مہر مؤکدہونے کے بعداگر بیوی نے معاف نہ کیا ہو توطلاق دینے سے وہ ساقط نہیں ہوتااور شوہرپرپورا مہرادا کرنالازم ہوتاہے،۔قرآنِ کریم اور احادیثِ مبارکہ میں خوش دلی سے عورتوں کا مہر اداکرنے کا حکم دیاگیاہے۔چنانچہ قرآن کریم میں ارشادِباری تعالیٰ ہے:

"وَآتُوا النِّسَاءَ صَدُقَاتهن نِحْلَةً ."

ترجمہ:"اوردے دو عورتوں کواُن کے مہرخوشی سے "۔(النساء:4)

اس آیتِ کریمہ میں یہ حکم دیا گیا  ہے کہ مہر عورت کاحق ہے اور شوہرپراس کی ادائیگی واجب ہے،جس طرح دیگرحقوقِ واجبہ کوخوش دلی کے ساتھ اداکرناضروری ہے ، اسی طرح مہرکوبھی خوش دلی کے ساتھ اداکرنالازم ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں شوہر نے اگر ابھی تک آپ کی بیٹی کو  مہر ادا نہیں کیا ہے تو اس کے ذمہ لازم ہے کہ وہ مہر ادا کرے،کیوں کہ  مہر بیوی کا حق ہے،اور کسی کے مال کو بلا وجہ اپنے پاس روکے رکھنا شرعا ظلم وناجائز ہے،حدیث میں بھی   اس کی مذمت بیان کی گئی ہے، چناں چہ نبی کریم ﷺ کاارشاد ہے:

"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ألا لاتظلموا ألا لا يحل مال امرئ إلا بطيب نفس منه»."

(مشکاۃ المصابیح،کتاب البیوع،باب الغصب والعاریۃ،الفصل الثانی،ج:2،ص:889،رقم:2946،ط:المکتب الاسلامی بیروت)

ترجمہ:" خبردار!  اے مسلمانو! ظلم نہ کیا کرو، اور یاد رکھو کسی شخص کا مال اس کی دلی رضامندی کے بغیر دوسرے شخص کے لیے حلال نہیں ہے۔"

باقی اگر شوہر کےگھر والوں نے منہ دکھائی کے وقت جو  زیورات آپ کی بیٹی کو  دئے تھے وہ اگر  واقعۃ مہر ادا کرنے کی صراحت سے دیا تھااور  یہ کہا تھا کہ یہ زیورات بطور مہر کے دئے جارہے ہیں، تو اس سے مہر ادا ہوگیا، اور اگر گفٹ یا تحفہ کہہ کر دیا ہے تو اس کو مہر میں شمار کرنا درست نہیں ہو گا اور علیحدگی کے بعداگر ابھی تک مہر ادا نہیں کیا ہے توشوہر کے ذمہ وہ زیورات یا اس کی قیمت ادا کرنی لازم ہے ،اوراگران زیورات کو دیتے وقت کسی قسم کی صراحت نہیں کی گئی تو عرف کے اعتبار سے ان زیورات کو تحفہ گفٹ سمجھا جائے گا،اور مہر کی رقم شوہر کو الگ سے ادا کرنی پڑے گی۔ منہ دکھائی کے طور پر دئے گئے مذکورہ زیورات کو طلاق کے بعد اب مہر میں شمار کرنا جائز نہیں ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"قلت: ومن ذلك ما يبعثه إليها قبل الزفاف في الأعياد والمواسم من نحو ثياب وحلي، وكذا ما يعطيها من ذلك أو من دراهم أو دنانير صبيحة ليلة العرس ويسمى في العرف صبحة، فإن كل ذلك تعورف في زماننا كونه هدية لا من المهر ولا سيما المسمى صبحة،فإن الزوجة تعوضه عنها ثيابها ونحوها صبيحة العرس أيضاً."

(کتاب النکاح، باب المهر، ج 3، ص 153، ط: سعید)

وفیہ ایضا:

"والمعتمد البناء على العرف كما علمت."

(کتاب النکاح، باب  المهر، ج 3، ص 157، ط: سعید)        

وفیہ ایضا:

"(‌وتتمّ) ‌الهبة (بالقبض) الكامل."

(کتاب الھبة،ج:5،ص:690،ط:سعید)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"وإذا بعث الزوج إلى أهل زوجته أشياء عند زفافها منها ديباج فلما زفت إليه أراد أن يسترد من المرأة الديباج ليس له ذلك إذا بعث إليها على جهة التمليك، كذا في الفصول العمادية."      

(کتاب النکاح، باب المهر، الفصل السادس عشر فی جهاز البنت، ج 1، ص 327، ط:دارالفکر بیروت)

وفیہ ایضا:

"المهر يتأكد بأحد معان ثلاثة: الدخول، والخلوة الصحيحة، وموت أحد الزوجين سواء كان مسمى أو مهر المثل حتى لا يسقط منه شيء بعد ذلك إلا بالإبراء من صاحب الحق، كذا في البدائع."

(کتاب النکاح، الباب السابع فی المهر،ج:1،ص:303،ط:دارالفکر بیروت)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وإذا طالبت المرأة بالمهر يجب على الزوج تسليمه أولا؛ لأن حق الزوج في المرأة متعين، وحق المرأة في المهر لم يتعين بالعقد، وإنما يتعين بالقبض فوجب على الزوج التسليم عند المطالبة ليتعين۔۔۔أن المهر ملك المرأة وحقها؛ لأنه بدل بضعها، وبضعها حقها وملكها، والدليل عليه قوله عز وجل: {وآتوا النساء صدقاتهن نحلة} [النساء: 4] أضاف المهر إليها فدل أن المهر حقها وملكها."

(کتاب النکاح، فصل بيان ما يجب به المهر،ج:2،ص:290/288،ط:دار الكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144602102686

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں