ایک مشہور حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ایک ایسی نماز ہے ،جو منافقوں پر سب سے زیادہ بھاری ہے ،وہ کون سی نماز ہے ، اور اس حدیث کی تشریح کیا ہے ؟
یہ حدیث کتبِ حدیث میں مستند طور پر روایت کی گئی ہے،جس میں نبی کریم ﷺ نے فجر اور عشاء کی نماز کے بارے میں فرمایا کہ یہ منافقوں پر سب سے زیادہ بھاری ہوتی ہیں، حضرت ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے كہ نبى كريم ﷺنے ارشاد فرمايا کہ :
" منافقين كے ليے سب سے بھارى عشاء اور فجر كى نماز ہے، اگر انہيں علم ہو كہ اس ميں كيا ( اجروثواب ) ہے تو وہ اس كے ليے ضرور آئيں چاہے گھسٹ كر آئيں، اور ميں نے ارادہ كيا ہے كہ نماز كى اقامت كا حكم دوں پھر ايك شخص كو نماز پڑھانے كا حكم دوں، اور پھر اپنے ساتھ كچھ آدمى لے كر جاؤں جن كے ساتھ لكڑيوں كا ايندھن ہو اور جو لوگ نماز كے ليے نہيں آئے انہيں گھروں سميت جلا كر راكھ كر دوں."
يہ حديث شريف رسول الله ﷺ كے زمانے كے منافقين كے بارے میں ہے، جس میں منافقین کی ایک علامت بتائی گئی ہے ،کہ ویسے تو منافقین پر سب نمازیں بھاری ہیں،البتہ فجر اور عشاء کی نماز آرام اور نیند کے وقت میں ہیں، اس لیے یہ منافقین پر زیادہ بھاری ہیں،اور ان دو وقتوں میں نماز میں حاضر ہونا ان کو طبیعت پر نہایت گراں گزرتا ہے، جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے مسلمانوں کے لیے یہ بات بہت بعید تھی کہ کوئی بلاعذر مسجد کی جماعت چھوڑ دے ،چہ جائے کہ نماز چھوڑے، نیز نماز کے بھاری ہونے کا مطلب یہ ہے کہ دلی طور پر اسے ناپسند سمجھے اور اگر پڑھے بھی تو اسے بوجھ سمجھ کر محض دکھاوے کے لیے پڑھے، لہذا اب اگر کوئی مسلمان فجر اور عشاء کی نماز میں سستی کرتا ہے تو اسے منافق نہیں شمار کیا جائے گا، کیوں کہ یہ اس کی عملی سستی ہے جس کی وجہ سے وہ گناہ گار ہوگا، اسی طرح جو مسلمان پنج وقتہ نمازوں میں سستی کرے وہ گناہ گار ہے، لیکن وہ دل سے نماز کو برا یا طبیعت پر بوجھ نہیں سمجھتا اس لیے اسے منافق کہنا درست نہیں، البتہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس نے منافقوں والا عمل کیا ہے۔
صحیح مسلم میں ہے:
"عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: « إن أثقل صلاة على المنافقين صلاة العشاء وصلاة الفجر، ولو يعلمون ما فيهما لأتوهما ولو حبوا. ولقد هممت أن آمر بالصلاة فتقام، ثم آمر رجلا فيصلي بالناس. ثم أنطلق معي برجال معهم حزم من حطب إلى قوم لا يشهدون الصلاة فأحرق عليهم بيوتهم بالنار ."
(کتاب الصلوة، باب فضل الجماعة، ج:2، ص:123، ط:دار الطباعة العامرة)
مشکوٰۃ المصابیح میں ہے :
"وعنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ليس صلاة أثقل على المنافق من الفجر والعشاء ولو يعلمون ما فيهما لأتوهما ولو حبوا."
(کتاب الصلوٰۃ، باب فضائل الصلوٰۃ، الفصل الأول، ج:1، ص: 198، ط:المکتب الإسلامي بیروت)
شرح النووی علی مسلم میں ہے :
"وقال الجمهور ليست فرض عين واختلفوا هل هي سنة أم فرض كفاية كما قدمناه وأجابوا عن هذا الحديث بأن هؤلاء المتخلفين كانوا منافقين وسياق الحديث يقتضيه فإنه لا يظن بالمؤمنين من الصحابة أنهم يؤثرون العظم السمين على حضور الجماعة مع رسول الله صلى الله عليه وسلم وفي مسجده."
(کتاب الصلوة، باب فضل الجماعة، ج:5، ص:153، ط:دار الإحياء)
عمدة القاري شرح صحيح البخاري میں ہے:
"السادس: ما قاله حذيفة: ذهب النفاق، وإنما كان النفاق على عهد رسول الله، عليه السلام، ولكنه الكفر بعد الإيمان، فإن الإسلام شاع وتوالد الناس عليه، فمن نافق بأن أظهر الإسلام وأبطن خلافه فهو مرتد."
(كتاب الإيمان، باب علامة المنافق، ج:1، ص:222، ط:دار إحياء التراث العربي)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144609101506
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن