بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1446ھ 19 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

منفرد جہری نماز میں قراءت کیسے کرے؟


سوال

ایک مسئلہ تو یہ ہے کہ دن کی نوافل میں سرًّا قراء ت کرنا واجب ہے اور رات کی نوافل میں اختیار ہے چاہے سرًّا قراءت کی جائے یا جہرًا۔ اسی طرح ایک مسئلہ یہ ہے کہ منفرد کے لیے سری نماز میں سرًّا قراءت کرنا ضروری ہے اور جہری میں اس کو اختیار ہے چاہے سرًّا کرے یا جہرًا۔ اب مذکورہ دونوں مسئلوں کے تناظر میں ایک مسئلہ یہ معلوم کرنا ہے کہ اگر کسی شخص کی جہری نماز چھوٹ گئی اور وہ اس کی قضا دن میں کر رہا ہے تو اب کیا وہ اس میں سرًّا قراءت کرے گا یا اس کو اختیار ہوگا کہ سرًّا کرے یا جہرا؟

جواب

واضح رہے کہ جہری نماز میں بلند آواز  سے قراءت کا واجب ہونا جماعت و امامت کے ساتھ خاص ہے، منفرد  کے لیے  جہری نماز میں بلند آواز سے قراءت کرنا نہ ضروری ہے اور نہ ہی جہری نماز میں سر کرنے سے اس پر سجدہ سہو لازم ہوتا ہے،لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر منفرد جہری نماز میں جہر  کرنا چاہے تو کر سکتا ہے تاہم شرعًا ضروری نہیں۔لیکن جہری نماز کی قضا  اگر دن میں کرے گا تو سرًّا قراءت واجب ہوگی۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

’’و المنفرد لا يجب عليه السهو بالجهر و الإخفاء؛ لأنهما من خصائص الجماعة، هكذا في التبيين‘‘.

(الفتاوى الهندية، كتاب الصلاة، الباب الثاني عشر في سجود السهو، قبيل فصل سهو الإمام يوجب عليهالخ ، 128/1، ط: رشيدية)

بدائع الصنائع میں ہے:

”وإن كان منفردا فإن كانت صلاة يخافت فيها بالقراءة خافت لا محالة، وهو رواية الأصل، وذكر أبو يوسف في الإملاء إن زاد على ما يسمع أذنيه فقد أساء.

وذكر عصام بن أبي يوسف في مختصره وأثبت له خيار الجهر والمخافتة، استدلالا بعدم وجوب السهو عليه إذا جهر، والصحيح رواية الأصل لقوله - صلى الله عليه وسلم -: «صلاة النهار عجماء من غير فصل» ؛ ولأن الإمام مع حاجته إلى إسماع غيره يخافت فالمنفرد أولى ولو جهر فيها بالقراءة فإن كان عامدا يكون مسيئا، كذا ذكر الكرخي في صلاته وإن كان ساهيا لا سهو عليه نص عليه في باب السهو بخلاف الإمام.

(والفرق) أن سجود السهو يجب لجبر النقصان، والنقصان في صلاة الإمام أكثر؛ لأن إساءته أبلغ؛ لأنه فعل شيئين نهي عنهما: أحدهما - أنه رفع صوته في غير موضع الرفع، والثاني - أنه أسمع من أمر بالإخفاء عنه، والمنفرد رفع صوته فقط فكان النقصان في صلاته أقل، وما وجب لجبر الأعلى لا يجب لجبر الأدنى وإن كانت صلاة يجهر فيها بالقراءة فهو بالخيار، إن شاء جهر وإن شاء خافت، وذكر الكرخي إن شاء جهر بقدر ما يسمع أذنيه ولا يزيد على ذلك، وذكر في عامة الروايات مفسرا أنه بين خيارات ثلاث: إن شاء جهر وأسمع غيره، وإن شاء جهر وأسمع نفسه، وإن شاء أسر القراءة، أما كون له أن يجهر فلأن المنفرد إمام في نفسه، وللإمام أن يجهر.

وله أن يخافت بخلاف الإمام؛ لأن الإمام يحتاج إلى الجهر لإسماع غيره والمنفرد يحتاج إلى إسماع نفسه لا غير، وذلك يحصل بالمخافتة، وذكر في رواية أبي حفص الكبير أن الجهر أفضل؛ لأن فيه تشبيها بالجماعة، والمنفرد إن عجز عن تحقيق الصلاة بجماعة لم يعجز عن التشبه، ولهذا إذا أذن وأقام كان أفضل هذا في الفرائض وأما في التطوعات فإن كان في النهار يخافت، وإن كان في الليل فهو بالخيار إن شاء خافت وإن شاء جهر، والجهر أفضل؛ لأن النوافل أتباع الفرائض، والحكم في الفرائض كذلك....‘‘الخ

(بدائع الصنائع،كتاب الصلاة،الواجبات الاصلية، 161/1، دار الكتب العلمية)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144310101430

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں