1. کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس شخص کے بارے میں جس کا عقیدہ ہو کہ اللہ کے نبی عیسیٰ علیہ السلام کو نہ آسمان پر اٹھایا گیا اور نہ ہی وہ آخری زمانے میں دوبارہ نازل ہوں گے، بلکہ وہ وفات پا چکے ہیں؟
2۔ کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس شخص کے بارے میں جس کا عقیدہ ہو کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا سفرِ معراج مسجدِ حرام سے بیت المقدس تک ہوا، کیونکہ قرآن میں صرف اسراء یعنی مکہ سے بیت المقدس کا ذکر ہے، جبکہ آسمانوں کے سفر کا ذکر قرآن میں نہیں ہے، بلکہ اس کی تفصیل صرف روایات میں ہے، اور ان میں اختلاف پایا جاتا ہے، لہٰذا وہ اس کا انکار کرے؟
3. پرویزی اور منکرینِ حدیث یہ نظریہ رکھتے ہیں کہ وہ صرف ان امور کو مانیں گے جو قرآن میں صراحت کے ساتھ مذکور ہیں اور حدیث کو حجت نہیں سمجھتے، چاہے وہ حدیث صحیح ہی کیوں نہ ہو۔ یہ لوگ صرف ایک یا دو مسائل کا نہیں بلکہ بہت سے امور—مثلاً عذابِ قبر، شفاعت، مسجدِ حرام اور مسجدِ نبوی میں نماز کی فضیلت، خروجِ دجال، نزولِ عیسیٰ، خروجِ مہدی، حدیثِ قلیبِ بدر، اور حدیثِ وضعِ قدم—کا بھی انکار کرتے ہیں؛کیونکہ خلاف قران اور عقل ہے۔
کیا ایسا عقیدہ رکھنا کفر ہوگا؟ اور کیا ایسے شخص کو مسلمان کہا جا سکتا ہے یا نہیں؟
4. ایسے عقیدے کا حامل شخص ایک مسلمان گھرانے میں نکاح کا خواہش مند تھا۔ ابتدائی طور پر رشتہ قبول کر لیا گیا، لیکن بعد میں علمائے کرام نے اس کے عقائد کی نشاندہی کی، جس کے بعد اس کے ساتھ نکاح سے انکار کر دیا گیا۔ اس پر اس شخص نے علما سے باقاعدہ فتویٰ طلب کیا۔
علمائے کرام اس مسئلے میں کیا فرماتے ہیں؟ کیا ایسے شخص سے نکاح جائز ہوگا یا نہیں؟
1۔واضح رہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات اور ان کا نزول قرآن،احادیث متواترہ اور اجماع امت سے ثابت ہے، اور یہ عقیدہ ضروریاتِ دین میں سے ہے۔ ضروریاتِ دین کا منکر دائرۂ اسلام سے خارج ہے۔
2۔جو شخص معراج یعنی بیت المقدس سے آسمانوں کے سفر کا منکر ہو، وہ گمراہ، بدعتی ہے۔اور تفصیل میں اختلاف ہونے کےبا وجود ، قدر مشترک معراج کا سفر کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔
3۔غلام احمد پرویز اور اس کے پیروکار ضروریاتِ دین جیسے نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، اور اطاعتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اسلامی تعلیمات اور صریح نصوصِ قرآنیہ کے بالکل مخالف و منافی نظریات رکھتے ہیں۔ انہوں نے آیاتِ قرآنیہ کی مضحکہ خیز اور من پسند تاویلات کی ہیں، جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ غلام احمد پرویز اور اس کے متبعین کا دینِ محمدی سے کوئی تعلق نہیں، بلکہ وہ دائرۂ اسلام سے خارج اور کافر فرقہ ہیں (تفصیل کے لیے فتاویٰ بینات، کتاب العقائد، کفریاتِ پرویز، ج:1، ص:354، ط: مکتبہ بینات کا ملاحظہ کریں)۔
اور جو شخص احادیثِ مبارکہ کا مطلقاً انکار کرتا ہے اور ان کی حجّیت کو نہیں مانتا، تو ایسے شخص کے کفر میں کوئی شبہ نہیں اور اسی طرح احادیث متواترہ کا منکر بھی دائرۂ اسلام سے خارج ہے۔ البتہ جو شخص بلا تاویل کسی ایسی خاص حدیث کا انکار کرے جسے جمہورِ اہلِ سنت نے قبول کیا ہو، تو وہ گمراہ ہے۔ تاہم اگر وہ کسی دوسری نص کی بنیاد پر یا اس کے نزدیک حدیث صحیح سند سے ثابت نہ ہونے کی وجہ سے انکار کرے، یا کوئی معتبر تاویل کرے اور اس کا مقصد محض نفسانی خواہش نہ ہو (جیسا کہ بعض ائمہ مجتہدین کا طرزِ عمل ہے)، تو اس میں حرج نہیں۔
4۔مذکورہ عقائد کا حامل شخص چونکہ دائرۂ اسلام سے خارج ہے؛ اس لیے اس سے نکاح کرنا جائز نہیں۔
ارشاد باری تعالی ہے:
وَّ قَوْلِهِمْ اِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِیْحَ عِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ رَسُوْلَ اللّٰهِ ۚ وَ مَا قَتَلُوْهُ وَ مَا صَلَبُوْهُ وَ لٰکِنْ شُبِّهَ لَهُمْ ؕ وَ اِنَّ الَّذِیْنَ اخْتَلَفُوْا فِیْهِ لَفِیْ شَكٍّ مِّنْهُ ؕ مَا لَهُمْ بِهِ مِنْ عِلْمٍ اِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ ۚ وَ مَا قَتَلُوْهُ یَقِیْنًا بَلْ رَّفَعَهُ اللّٰهُ اِلَیْهِ ؕ وَ کَانَ اللّٰهُ عَزِیْزًا حَکِیْمًا وَ اِنْ مِّنْ اَهْلِ الْکِتٰبِ اِلَّا لَیُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ ۚ وَ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ یَکُوْنُ عَلَیْهِمْ شَهِیْدًا (157 تا 159النساء)
ترجمہ:اور ان کے اس کہنے کی وجہ سے کہ ہم نے مسیح عیسیٰ بن مریم کو جو کہ رسول ہیں الله تعالیٰ کے قتل کردیا حالانکہ انہوں نے نہ ان کو قتل کیا اور نہ ان کو سولی پر چڑھایا لیکن ان کو اشتباہ ہوگیا اور جو لوگ ان کے بارہ میں اختلاف کرتے ہیں وہ غلط خیال میں ہیں ان کے پاس اس پر کوئی دلیل نہیں بجز تخمینی باتوں پر عمل کرنے کے اور انہوں نے ان کو یقینی بات ہے کہ قتل نہیں کیا ۔بلکہ ان کو خدا تعالیٰ نے اپنی طرف اٹھا لیا اور الله تعالیٰ بڑے زبردست ہیں حکمت والے ہیں۔اور کوئی شخص اہل کتاب سے نہیں رہتا مگر وہ عیسیٰ (علیہ السلام) کی اپنی مرنے سے پہلے ضرور تصدیق کرلیتا ہے اور قیامت کے روز وہ ان پر گوہی دینگے ۔(ازبیان القران)
تفسير البغوي میں ہے:
"{وإنه} يعني عيسى عليه السلام، {لعلم للساعة} يعني نزوله من أشراط الساعة يعلم به قربها، وقرأ ابن عباس وأبو هريرة وقتادة: "وإنه لعلم للساعة" بفتح اللام والعين أي أمارة وعلامة.
وروينا عن النبي صلى الله عليه وسلم: "ليوشكن أن ينزل فيكم ابن مريم حكما عادلا يكسر الصليب، ويقتل الخنزير ويضع الجزية، وتهلك في زمانه الملل كلها إلا الإسلام"."
(ج:7،ص:219،ط:دار طيبة للنشر والتوزيع)
تفسير ابن كثيرمیں ہے:
"وقد تواترت الأحاديث عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه أخبر بنزول عيسى عليه السلام قبل يوم القيامة إماما عادلا وحكما مقسطا."
(ج:7، ص:217، ط:دار الكتب العلمية)
اکفار الملحدین میں ہے:
"إنه قد تواتر و انعقد الإجماع على نزول عيسى بن مريم علیه السلام، فتأويل هذه و تحریفه کفر أيضا."
(إكفار الملحدين، ص:33،ط:دار البشائر الإسلامية)
الفقه الأكبرمیں ہے:
"وخبر المعراج حق من رده فهو مبتدع ضال."
(أبناء رسول الله وبناته،ص:70،ط:مكتبة الفرقان - الإمارات العربية)
شرح الكتاب الفقه الأكبرمیں ہے:
"(وخبر المعراج) أي بجسد المصطفى و يقظة إلى السماء، ثم إلى ما شاء الله تعالى من المقامات العُلى (حق) أي حديثه ثابت بطرق متعددة (فمَن ردّه) أي ذلك الخبر ولم يؤمن بمقتضى ذلك الأثر (فهو ضالّ مبتدع) أي جامع بين الضلالة والبدعة.
وفي كتاب الخلاصة: مَن أنكر المعراج يُنظر إن أنكر الإسراء من مكة إلى بيت المقدس فهو كافر، ولو أنكر المعراج من بيت المقدس لا يكفر، وذلك لأن الإسراء من الحرم إلى الحرم ثابت بالآية، وهي قطعية الدلالة، والمعراج من بيت المقدس إلى السماء ثبت بالسُّنّة وهي ظنيّة الرواية والدراية."
(ص:190،ط:دار الكتب العلمية)
النبراس میں ہے:
" الجمهور على أن منكر الحديث المتواتر .. کافر، ومنكر المشهور .. فاسق، ومنكر خبر الآحاد .. آثم، هذا هو الصحيح، ومن العجائب ما في «الظهيرية»: من أن منكر المشهور كافر،إلا عند عيسى بن أبان -أحد عظماء الحنفية- وذكر بعضهم: أن المبتدع هو من أنكر تفاصيل المعراج؛ فإن الأخبار فيها آحاد، وأما من أنكر أصل المعراج فيكفر؛ لأن القدر المشترك متواتر، وهذا لا يبعد عن الصواب."
(ص:623،ط:دار یاسین،ترکیا)
فتاوی عزیزی میں ہے:
"اس مسئلہ میں چند احتمالات ہیں:
اول یہ کہ تمام حدیثوں کا انکار کرے یہ بعینہ کفر ہے۔
دوسرے یہ کہ حدیثِ متواتر کا انکار کرے اور اس میں کوئی تاویل نہ کرے، یہ بھی کفر ہے۔
تیسرے یہ کہ صحیح احادیث میں سے ''آحاد '' کا انکار کرے اور یہ انکار خواہشِ نفسانی سے ہو، اس وجہ سے کہ وہ حدیث طبیعت کے موافق نہ ہو یا دنیوی مصلحت کے خلاف ہو یہ گناہِ کبیرہ ہے، ایسا منکر بدعتی ہے، یعنی بدعتِ سیئہ کرتا ہے۔
چوتھے یہ کہ اس وجہ سے حدیث کا انکار کرے کہ اس کے خلاف کوئی دوسری حدیث قوی تر ہو یا یہ کہ ناقل کے قول پر اس کو اعتماد نہ ہو اس وجہ سے وہ شخص یہ سمجھتا ہو کہ فی الواقع یہ حدیث نہیں ہے اور اس خیال سے اس کو اس حدیث سے انکار ہو اور یہ انکار خواہشِ نفسانی سے نہ ہو اور نہ کسی دنیوی غرض سے ہو اور اپنے کلام کی سر سبزی بھی منظور نہ ہو اور نہ کوئی دوسری غرض فاسدہ مقصود ہو، بلکہ اس وجہ سے اس کو انکار ہو کہ وہ حدیث اس کے گمان میں علمِ اصولِ حدیث کے قواعد کے خلاف ہو یا کسی آیتِ قرآنی کے خلاف ہو یا ایسی ہی کوئی اور مناسب وجہ انکار کی اس کے نزدیک ہو تو ایسے انکار میں کچھ حرج نہیں۔"
(مسائل فقہ،ص:441،ط:ایچ ایم سعید)
فتاویٰ شامی میں ہے:
"(ولا) يصلح (أن ينكح مرتد أو مرتدة أحدا) من الناس مطلقا...(قوله مطلقا) أي مسلما أو كافرا أو مرتدا."
(كتاب النكاح، باب نكاح الكافر، ج:3، ص:200، ط:سعيد)
فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
"لا يجوز نكاح المجوسيات ولا الوثنيات وسواء في ذلك الحرائر منهن والإماء، كذا في السراج الوهاج. ويدخل في عبدة الأوثان عبدة الشمس والنجوم والصور التي استحسنوها والمعطلة والزنادقة والباطنية والإباحية وكل مذهب يكفر به معتقده."
(كتاب النكاح، الباب الثالث في بيان المحرمات، القسم السابع المحرمات بالشرك، ج:1، ص:281، ط:دار الفکر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144609101726
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن