بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1446ھ 19 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

مقتدی کا امام سے پہلے تحریمہ مکمل کرنا، تسمیع کہنے میں تاخیر کرنا، دونوں سلاموں کے درمیان وقفہ کرنا


سوال

1. بعض امام  نماز شروع کرتے  وقت لفظ اللہ بہت کھینچتے ہیں جس کی وجہ سے کئی مقتدی امام سے پہلے تکبیر تحریمہ مکمل کر لیتے ہیں تو ان مقتدیوں کی نماز کا کیا حکم ہے؟

2. بعض امام جب قومہ کے لیے اٹھتے ہیں تو اس کے شروع میں تسمیع نہیں پڑھتے بلکہ تھوڑا اٹھ کر پھر شروع کرتے ہیں، اب امام کے اٹھتے وقت کوئی آدمی جماعت میں شامل ہو جائے اور تسمیع سے پہلے وہ رکوع میں چلا جائے اور اس کا تو یہی خیال ہوتا ہے کہ امام رکوع میں ہے تو یہ رکعت مقتدی کو مل گئی یا نہیں؟

3. بعض لوگ پہلا سلام پھیرنے کے بعد سامنے کی طرف تھوڑا وقفہ کرتے ہیں پھر دوسرا سلام پھیرتے ہیں، حنفی مذہب میں اس وقفے کا کیا حکم ہے؟

جواب

1. جماعت سے امام کے پیچھے نماز پڑھنے کی صورت میں مقتدی پر لازم ہے کہ اس کی تکبیر تحریمہ امام کی تکبیر تحریمہ سے مؤخر ہو یعنی: مقتدی کی تکبیر امام کی تکبیر کے بعد ختم ہو، اگر مقتدی نے اپنی تکبیر تحریمہ امام کی تکبیر تحریمہ سے پہلے ہی مکمل کرلی تو وہ مقتدی اس امام کی اقتدا میں اس جماعت میں شامل ہی نہیں ہوا؛ اس لیے اس کو یہ نماز دوبارہ پڑھنی پڑے گی، لہذا امام کو چاہیے کہ لفظِ اللہ کو اتنا لمبا نہ کریں جس کی وجہ سے مقتدیوں کی تکبیرِ تحریمہ امام سے پہلے مکمل ہو جائے اور ان کی نماز خراب ہو، مقتدیوں کو بھی چاہیے کہ اس بات کا خیال رکھیں کہ ان کی تحریمہ امام سے پہلے مکمل نہ ہو۔

2. تکبیراتِ انتقالیہ کے سلسلے میں سنت یہ ہے کہ ایک رکن سے دوسرے رکن کی طرف انتقال شروع کرتے ہوئے تکبیر یا تسمیع وغیرہ شروع کرے اور انتقال کے اختتام کے ساتھ ساتھ تکبیریاتسمیع وغیرہ  مکمل کرلے، اس میں امام ومقتدی کی کوئی تخصیص نہیں ہے،لہٰذاامام  کو چاہئے کہ  اس بات کااہتمام کریں کہ رکوع سے اٹھتے وقت شروع میں ہی تسمیع شروع کر   دیاکریں ؛تاکہ جماعت میں شامل ہونے والوں امام کے رکوع میں ہونے کا شبہ نہ ہو۔ 

اگر مقتدی امام سے دور ہو اور امام سے  دور ہونے کی وجہ سےمعلوم نہ ہو کہ تسمیع کہتے وقت امام کس حالت میں ہے تو ایسے موقع پر امام کی آواز کا اعتبار ہوگا اور  تسمیع سننے سے پہلے جو مقتدی رکوع میں شامل ہو گیا تو اس کو رکعت مل گئی۔

3. نماز  میں  دونوں  جانب  سلام  پھیرنے کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ سلام کا آغاز  اس وقت کیا جائے جب چہرہ قبلہ کی طرف ہو اور اختتام اس وقت ہو جب چہرہ دائیں   جانب ہو، اور دوسرے سلام کا آغاز اس حالت میں کیا جائے کہ دوبارہ  چہرہ  قبلہ کی جانب ہو ، اس صورت میں معمولی سا وقفہ ہوجائے تو اس سے نماز پر کوئی فرق نہیں پڑے گا، البتہ مستقل اس طرح وقفہ کرنے کا حکم نہیں ہے ۔ 

فتاوٰی شامی میں ہے:

"(قوله ‌ومتابعته ‌لإمامه في الفروض) أي بأن يأتي بها معه أو بعده، حتى لو ركع إمامه ورفع فركع هو بعده صح، بخلاف ما لو ركع قبل إمامه ورفع ثم ركع إمامه ولم يركع ثانيا مع إمامه أو بعده بطلت صلاته، فالمراد بالمتابعة عدم المسابقة، نعم متابعته لإمامه بمعنى مشاركته له في الفرائض معه لا قبله ولا بعده واجبة كما سيذكره في الفصل الآتي عند قوله واعلم أن مما يبتنى على لزوم المتابعة إلخ، واحترز بالفروض عن الواجبات والسنن، فإن المتابعة فيها ليست بفرض فلا تفسد الصلاة بتركها".

(کتاب الصلوۃ،باب صفة الصلٰوۃ،450/1،ط:سعید)

فتاوٰی عالمگیری میں ہے:

"ویکبر مع الانحطاط، کذا في ”الهدایة“ قال الطحاوي: وهو الصحیح کذا في ”معراج الدرایة“ فیکون ابتداء تکبیرہ عند أول الخرور والفراغ عند الاستواء للرکوع کذا في المحیط".

(کتاب الصلوۃ1/ 131، ط: دار الکتب العلمیة)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

''ثم يسلم تسلمتين تسليمة عن يمينه و تسليمة عن يساره و يحول في التسليمة الأولى وجهه عن يمينه حتى يرى بياض خده الايمن و في التسليمة الثانية عن يساره حتى يرى بياض خده الايسر و في القنية هو الاصح.''

(كتاب الصلاة، الفصل الثالث في سنن الصلاة و آدابها و كيفيتها، ج:1، ص:76، ط: مکتبة ماجدیه)

معارف السنن میں ہے:

"والكيفية هذه من ابتداءه تلقاء الوجه وانتهائه في جانب اليمين ذكره في المجموع والمغني وهو المعمول به عندنا."

(كتاب الصلاة ، باب ما جاء في التسليم في الصلاة ، جلد : 3 ، صفحه : 113 ، طبع : مجلس الدعوة والتحقيق الاسلامي)

المجموع شرح المھذب میں ہے:

"فالسنة أن تكون إحداهما عن يمينه والأخرى عن يساره قال صاحب التهذيب وغيره يبتدئ السلام مستقبل القبلة ويتمه ملتفتا بحيث يكون تمام سلامه مع آخر الالتفات ففي التسليمة الأولى يلتفت حتى يرى من عن يمينه خده الأيمن وفي الثانية يلتفت حتى يرى من عن يساره خده الأيسر هذا هو الأصح وصححه إمام الحرمين والغزالي في البسيط والجمهور وبه قطع الغزالي في الوسيط والبغوي وغيرهما."

(کتاب الصلاة ، جلد : 3 ، صفحه : 477 ، طبع :  إدارة الطباعة المنيرية، مطبعة التضامن الأخوي)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144608101853

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں