اکثر مقتدی امام صاحب کے تکبیر پورا ہونے سے پہلے رکوع کرتے ہیں اور تکبیر کے پورا ہونے سے پہلے سجدہ کرتے ہیں مثلاً امام صاحب تکبیر میں لفظ اللہ ہی ادا کرتا ہے تو مقتدی فوراً رکوع اور سجدہ کرتے امام صاحب کے لفظ اکبر پورا ہونے سے پہلے کیا ایسا کرنا درست ہے ؟
واضح رہے کہ مقتدی کے لیے درست اور افضل طریقہ یہ ہے کہ جب امام تکبیر (اللہ اکبر) کا راء ادا کرے تو متقدی اسی کے ساتھ اپنی تکبیر (اللہ اکبر) کے الف کی ابتداء کرے اور اپنی تکبیر کے شروع کرتے وقت دوسرے عمل (مثلا رکوع میں جانا یا سجدہ میں جانا وغیرہ) میں جانا شروع کرے اور دوسرے عمل میں پہنچ کر تکبیر مکمل کرے۔لہذا صورتِ مسئولہ میں متقدیوں کا امام کے اکبر کہنے سے پہلے دوسرے عمل کی طرف منتقل ہوجانا درست نہیں ہے، نیز امام کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی تکبیرات کو اتنا طول نہ دے جس کی وجہ سے مقتدی کی تکبیر امام کی تکبیر کے بعد شروع ہونے کے باوجود امام سے پہلے ختم ہوجائے۔
نیز تکبیرِتحریمہ(نماز شروع کرنے کی تکبیر ) کے علاوہ رکوع اور سجدوں وغیرہ کی تکبیر میں اگر کوئی امام سے پہلے تکبیر کہہ دیتا ہے اور دوسرے عمل کی طرف منتقل بھی ہوجاتا ہے اور پھر امام بھی دوسرے عمل کی طرف منتقل ہوجاتا ہے اور دونوں اس عمل میں جمع ہوجاتے ہیں تو پھر اس شخص کی نماز ادا ہوجائے گی اور اس کا یہ عمل مکروہ ہوگا، البتہ تکبیر ِتحریمہ میں اگر کوئی شخص مکمل تکبیر (اللہ اکبر) یا صرف "اکبر" امام سے پہلے کہہ دے تو پھر نماز ادا نہیں ہوگی۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(ثم) كما فرغ (يكبر) مع الانحطاط (للركوع)»
و في الرد: (قوله مع الانحطاط) أفاد أن السنة كون ابتداء التكبير عند الخرور وانتهائه عند استواء الظهر، وقيل إنه يكبر قائما، والأول هو الصحيح كما في المضمرات وتمامه في القهستاني."
(کتاب الصلاۃ، فصل فی بیان تالیف الصلاۃ، ج : ۱، ص : ۴۹۳، ط: ایچ ایم سعید)
فتاوی شامی میں ہے:
"(ثم يسلم عن يمينه ويساره)....(مع الإمام) إن أتم التشهد كما مر. ولا يخرج المؤتم بنحو سلام الإمام بل بقهقهته وحدثه عمدا لانتفاء حرمتها فلا يسلم؛ ولو أتمه قبل إمامه فتكلم جاز وكره، فلو عرض مناف تفسد صلاة الإمام فقط (كتحريمة) مع الإمام. وقالا: الأفضل فيهما بعده
و في الرد: (قوله تفسد صلاة الإمام فقط) أي لا صلاة المأموم لأنه لما تكلم خرج عن صلاة الإمام قبل عروض المنافي لها (قوله مع الإمام) متعلق بالتحريمة، فإن المراد بها هنا المصدر أي كما يحرم مع الإمام، وإنما جعل التحريمة مشبها بها لأن المعية فيها رواية واحدة عن الإمام، بخلاف السلام فإن فيه روايتين عنه أصحهما المعية ح (قوله وقالا الأفضل فيهما بعده) أفاد أن خلاف الصاحبين في الأفضلية وهو الصحيح نهر.
وقيل في الجواز حتى لا يصح الشروع بالمقارنة في إحدى الروايتين عن أبي يوسف ويكون مسيئا عند محمد كما في البدائع. وفي القهستاني: وقال السرخسي: إن قوله أدق وأجود وقولهما أرفق وأحوط. وفي عون المروزي: المختار للفتوى في صحة الشروع قوله وفي الأفضلية قولهما. اهـ. وفي التتارخانية عن المنتقى المقارنة على قوله كمقارنة حلقة الخاتم والأصبع. والبعدية على قولهما أن يوصل المقتدي همزة الله براء أكبر."
(کتاب الصلاۃ، فصل فی بیان تالیف الصلاۃ، ج : ۱، ص : ۵۲۶،ط: ایچ ایم سعید)
فتاوی شامی میں ہے:
"ولا يصير شارعا بالمبتدأ فقط ك (الله) ولا ب (أكبر) فقط هو المختار، فلو قال الله مع الإمام وأكبر قبله أو أدرك الإمام راكعا فقال الله قائما وأكبر راكعا لم يصح في الأصح؛ كما لو فرغ من (الله) قبل الإمام؛»
(قوله ولا يصير شارعا بالمبتدأ) لأن الشرط الإتيان بجملة تامة كما مر في النظم. ولا يخفى أن الإتيان بالواو أحسن من الفاء التفريعية لأن ما قبله بيان للواجب وهذا بيان للشرط فلا يصح التفريع فافهم (قوله هو المختار) وهو قول محمد وظاهر الرواية عن أبي حنيفة، وكذا قول أبي يوسف لما الخمسة ح (قوله فلو قال إلخ) بيان لثمرة الخلاف وتفريع على المختار (قوله قبله) أي قبل فراغه ح (قوله قائما) أي حقيقة وهو الانتصاب، أو حكما وهو الانحناء القليل بأن لا تنال يداه ركبتيه ح (قوله في الأصح) أي بناء على ظاهر الرواية وأفاد أنه كما لا يصح اقتداؤه لا يصير شارعا في صلاة نفسه أيضا وهو الأصح كما في النهر عن السراج."
(کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، ج : ۱، ص : ۴۸۰،ط:ایچ ایم سعید)
فتاوی شامی میں ہے:
"ولو ركع وسجد بعده صح، وكذا لو قبله وأدركه الإمام فيهما لكنه يكره."
(کتاب الصلاۃ، باب ما یفسد الصلاۃ، ج : ۱، ص : ۶۳۰، ط:ایچ ایم سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144605100025
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن