1: مروجہ حیلہ اسقاط جس میں قرآن کریم کا دور کروایا جاتا ہے درست ہے یا نہیں؟ اس کی درست صورت کیا ہوسکتی ہے؟
2: میت کے لیے ختم قرآن کرنا بغیر دن کی تعیین کیے، درست ہے یا نہیں؟ جس میں مدارس کے طلباء کو گھر بلاکر ختم کرایاجاتا ہےاور ان کو کھانا کھلایا جاتا ہے؟ جواز کی کیا صورت ہوسکتی ہے میت کے ایصال ِ ثواب کی؟
مروجہ حلیہ اسقاط ناجائزہے؛ اس میں درج ذیل مفاسد پائے جاتے ہیں:
1۔۔ عموماً جو مال اس میں لوگوں کے درمیان گھمایا جاتا ہے وہ میت کی ملکیت ہوتا ہے ، اس میں تمام ورثہ کی اجازت کے بغیر تصرف کرنا شرعاً جائز نہیں ہے،بالخصوص جب کہ ورثاء میں نابالغ بھی ہوں جن کی اجازت کا بھی کوئی اعتبار نہیں۔اور ان میں اگر بڑے لوگ بھی ہوں تب بھی ان کی طیب نفس (خوش دلی) عام طور پر نہیں ہوتی۔
2۔۔مال کو اس طرح لوگوں کے درمیان گھمانے سے یہ مال اگلے شخص کی ملکیت نہیں بنتا؛ اس لیے کہ اس میں ہر ایک دوسرے سے مال لیتا رہتا ہے اگر کوئی انکار کردے تو اس پرزبردستی بھی کی جاتی ہے۔ اس لیے اس سے اس میت کا فدیہ بھی ادا نہیں ہوتا۔
3۔۔فدیہ کی ادائیگی میں مصرف کو ادا کرنا ضروری ہے، جب کہ اس حیلہ میں اس کی کوئی رعایت نہیں کی جاتی ،بلکہ اغنیاء بھی اس میں شریک ہوتے ہیں۔
4۔۔اس حیلہ میں آخری شخص کی ملکیت میں مال آجاتا ہے، اس کی مرضی کے بغیر اس سے لے کر آگے دوسروں کو دیاجاتا ہے جو کہ جائز نہیں۔
5۔۔نیز اس حیلہ کو لازم سمجھ کر کرنا خود ایک بدعت ہے؛ لہذا اس سے اجتناب لازم ہے۔
مفتی محمد شفیع عثمانی صاحب ؒ فرماتے ہیں:
" الغرض اس حیلہ کی ابتدائی بنیاد ممکن ہے کہ کچھ صحیح اور قواعد شرعیہ کے مطابق ہو، لیکن جس طرح کا رواج اور التزام آج کل چل گیا ہے، وہ بلا شبہ ناجائز اور بہت سے مفاسد پر مشتمل، قابلِ ترک ہے۔ چند مفاسد اجمالی طور پر لکھے جاتے ہیں:
1۔ بہت مواقع میں اس کے لئے جوقر آن مجید اور نقد رکھا جا تا ہے، وہ میت کے متروکہ مال میں سے ہوتا ہے ، اور اس کے حقدار وارث بعض موجود نہیں ہوتے یا نابالغ ہوتے ہیں، تو ان کے مشترکہ سرمایہ کو بغیر ان کی اجازت کے اس کام میں استعمال کرنا حرام ہے۔حدیث میں ہے’’ لايحل مال امرء مسلم الا بطيب نفس منہ‘‘۔اور نابالغ تو اگر اجازت بھی دے دے تو وہ شرعاً نامعتبر ہے۔ اور ولی نابالغ کو ایسے تبرعات میں اس کی طرف سے اجازت دینے کا اختیار نہیں، بلکہ ایسے کام میں اس مال کا خرچ کرنا حرام ہے۔
2۔ اگر بالفرض مال مشترک نہ ہو، یا سب وارث بالغ ہوں ، اور سب سے اجازت بھی لی جاوے، تو تجر بہ شاہد ہے کہ ایسے حالات میں یہ معلوم کرنا آسان نہیں ہوتا کہ ان سب نے بطیبِ خاطر اجازت دی ہے، یا برادری اور کنبہ کے طعنوں کے خوف سے اجازت دی ہے ۔ اور اس قسم کی اجازت حسب تصریح حدیث مذکور کالعدم ہے ۔
3۔ اور اگر بالفرض یہ سب باتیں بھی نہ ہوں ، سب بالغ ورثاء نے بالکل خوش دلی کے ساتھ اجازت دے دی ہو، یا کسی ایک ہی شخص وارث یا غیر وارث نے اپنی ملک خاص سے اس کا انتظام کیا ہے، تو مفاسد ذیل سے وہ بھی خالی نہیں ۔ مثلاً اس حیلہ کی فقہی صورت یہ ہوسکتی ہے کہ جس شخص کو اول یہ قرآن اور نقد دیا جاتا ہے، اس کی ملک کر دیا جائے ، اور پوری وضاحت سے اس کو بتلا دیا جائے کہ اب تم مالک و مختار ہو، جو چاہو کرو۔ پھر وہ اپنی خوشی سے بلاکسی رسمی دباؤ یا لحاظ ومروت کے میت کی طرف سے کسی دوسرے شخص کو اسی طرح دےدے، اور مالک بنادے، اور پھر وہ شخص اسی طرح کسی تیسرے چوتھے کو دے دے۔ لیکن مروجہ رسم میں اس کا کوئی لحاظ نہیں ہوتا ۔ اول تو جس کو دیا جاتا ہے، نہ دینے والا یہ سمجھتا ہے کہ اس کی ملک ہو گیا، اور وہ اس میں مختار ہے، نہ لینے والے کو اس کا کوئی خطرہ پیدا ہوتا ہے ، جس کی کھلی علامت یہ ہے کہ اگر شخص اس وقت یہ نقد لے کر چل دے، اور دوسرے کو نہ دے تو دینے والے حضرات ہرگز اس کو برداشت نہ کریں۔اور ظاہر ہے کہ اس صورت میں تملیک صحیح نہیں ہوتی ، اور بدونِ تملیک کے کوئی قضا یا کفارہ یا فدیہ معاف نہیں ہوتا۔اس لیے یہ حرکت بے کار ہو جاتی ہے۔
4۔ مذکورہ صورت میں یہ بھی ضروری ہے کہ جس شخص کو مالک بنایا جائے ، وہ مصرفِ صدقہ ہو، صاحبِ نصاب نہ ہو ۔ مگر عام طور پر اس کا کوئی لحاظ نہیں رکھا جا تا عمومًا ائمہ مساجد جو صاحب نصاب ہوتے ہیں، انہیں کے ذریعے یہ کام کیا جا تا ہے ، اس لیے بھی یہ سارا کاروبارلغووغلط ہو جا تا ہے ، میت کو اس سے کوئی فائدہ نہیں پہنچتا۔
5۔ اور بالفرض یہ آخری شخص اس کی تقسیم اور حصے بخرے لگانے پر آمادہ بھی ہو جائے ۔ اور فرض کرو کہ اس میں دباؤ سے نہیں دل سے راضی ہو جائے تو پھر بھی اس طرحکے حیلہ کا ہرمیت کے لیے التزام کرنا ، اور جیسے تجہیز و تکفین جیسے واجبات شرعیہ ہیں، اس طرح اسی درجہ میں اس کو اعتقاداً ضروری سمجھنا، یا عملاً ضروری کے درجہ میں التزام کرنا ، یہی احداث فی الدین ہے۔ جس کو اصطلاح ِشریعت میں بدعت کہتے ہیں ۔اور جو اپنی معنوی حیثیت سے شریعت میں ترمیم واضافہ ہے۔ نعوذ باللہ۔
نیز اس حیلہ کے التزام سے عوام الناس اور جہلاء کی یہ جرات بھی بڑھ سکتی ہے کہ تمام عمر بھی نہ نماز پڑھیں ، نہ روزہ رکھیں، نہ حج کریں، نہ زکوۃ دیں، مرنے کے بعد چند پیسوں کے خرچ سے یہ سارے مفاد حاصل ہو جائیں گے، جو سارے دین کی بنیادمنہدم کر دینے کے مترادف ہے۔ اللہ تعالی ہم سب مسلمانوں کو دین کے صحیح راستہ پر چلنے اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع کی توفیق عطاء فرمائے ۔
مذکور الصدرا جمالی مفاسد کو دیکھ کر بھی یہ فیصلہ کر لینا کسی مسلمان کے لیے دشوار نہیں کہ یہ حیلے حوالے اور اس کی مروجہ رسوم سب ناواقفیت پر مبنی ہیں ،میت کو اس سے کوئی فائدہ نہیں،اور کرنے والے بہت سے گناہوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ واللہ سبحانہ وتعالی اعلم۔" (مع الاختصار)
(حیلۂ اسقاط کی شرعی حیثیت، جواہر الفقہ، ج:1، ص: 560، ط: مکتبہ دار العلوم کراچی)
فتاوی شامی میں ہے:
"ولو لم يترك مالا يستقرض وارثه نصف صاع مثلا ويدفعه لفقير ثم يدفعه الفقير للوارث ثم وثم حتى يتم.
(قوله: ولو لم يترك مالا إلخ) أي أصلا أو كان ما أوصى به لا يفي. زاد في الإمداد: أو لم يوص بشيء وأراد الولي التبرع إلخ وأشار بالتبرع إلى أن ذلك ليس بواجب على الولي ونص عليه في تبيين المحارم فقال: لا يجب على الولي فعل الدور وإن أوصى به الميت لأنها وصية بالتبرع، والواجب على الميت أن يوصي بما يفي بما عليه إن لم يضق الثلث عنه، فإن أوصى بأقل وأمر بالدور وترك بقية الثلث للورثة أو تبرع به لغيرهم فقد أثم بترك ما وجب عليه.اه."
(كتاب الصلاة، باب قضاء الفوائت،2/ 73، ط: سعيد)
2: میت کے لیے ایصال ثواب کرنا ہر دن، ہر وقت جائز ہے، اور ہر قسم کے نفلی اعمال کا ثواب میت کو بخشا جاسکتا ہے، اس کا ثواب میت پہنچتا ہے، البتہ اس کے لیے کسی دن کو متعین کرنا درست نہیں ہے، لہذا کسی دن کی تعیین کے بغیر، قرآن پڑھ کر میت کو اس کا ثواب پہنچانا درست ہے اور اگر خود پڑھنا نہ جانتے ہوں تو جو پڑھنا جانتے ہیں اگر ان سے پڑھنے کی درخواست کرلی جائے جس پر کوئی اجرت طے نہ ہو، اور نہ ہی اس کےعوض کسی قسم کی کھانے کی دعوت کا التزام تو یہ جائز ہے، اگر کبھی اتفاقاً کھانا بھی ثواب کی نیت سے کھلادیا جائے تو منع نہیں ہوگا، لیکن اگر قرآن پڑھنے پر اجرت طے ہو یا اس کے بعد دعوت کا التزام ہو تو شرعاً یہ جائز نہیں ہوگا۔
فتاویٰ شامی میں ہے:
"فمن جملة كلامه: قال تاج الشريعة في شرح الهداية: إن القرآن بالأجرة لايستحق الثواب لا للميت ولا للقارئ. وقال العيني في شرح الهداية: ويمنع القارئ للدنيا، والآخذ والمعطي آثمان. فالحاصل أن ما شاع في زماننا من قراءة الأجزاء بالأجرة لايجوز؛ لأن فيه الأمر بالقراءة وإعطاء الثواب للآمر والقراءة لأجل المال؛ فإذا لم يكن للقارئ ثواب لعدم النية الصحيحة فأين يصل الثواب إلى المستأجر! ولولا الأجرة ما قرأ أحد لأحد في هذا الزمان، بل جعلوا القرآن العظيم مكسباً ووسيلةً إلى جمع الدنيا إنا لله وإنا إليه راجعون."
(كتاب الإجارة، باب الإجارة الفاسدة، مطلب في الاستئجار على الطاعات، 6/ 56، ط:سعید)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144603100373
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن