1۔دودھ دینے والے جانور خصوصاً بھینس، گائے اور ان کے بچےخواہ جس عمر کے بھی ہوں جب مردار ہو جائیں تو ڈیری فارمز والے ایسے جانوروں کے کون کون سے اعضاء استعمال کر سکتے ہیں؟
2۔مردار جانوروں کی ہڈیوں سے مرغی دانہ بنا کر اسے مرغی اور مویشیوں کی فیڈ میں استعمال کرنا شرعاً جائز ہے یا نہیں؟
3۔مردار جانوروں کے خون، گوشت اور دیگر آلائشوں کو مرغی کی فیڈ میں استعمال کرنا کیسا ہے؟
4۔مردہ جانوروں کی چربی پکا کر اس سے حاصل ہونے والے تیل کو ٹیکسٹائل اور صابن سازی کی صنعت میں استعمال کرنا کیسا ہے؟
اس کا طریقہ کار یہ ہے کہ مردہ جانور کو گودام میں لے جا کر پکایا جاتا ہے اس کا گوشت مرغی دانہ میں استعمال ہوتا ہے،لیکن اس کی چربی سے جو تیل نکلتا ہےوہ صابن سازی کی صنعت اور ٹیکسٹائل میں استعمال ہوتا ہے۔
واضح رہے کہ شریعت مطہرہ میں کسی چیز کی خرید و فروخت کے جائز اور ناجائز ہونے کا دار و مدار اس چیز سے "انتفاع "(نفع حاصل کرنا) کے جائز اور ناجائز ہونے پر ہے،یعنی اگر اس چیز سے شرعاً نفع حاصل کرنا جائز ہو تو اس کی خریدوفروخت بھی جائز ہوگی اور اس سے نفع حاصل کرنا جائز نہ ہو تو اس کی خریدوفروخت بھی جائز نہیں ہو گی، مثلاً شراب، خنزیر، مردار اور خون وغیرہ سے نفع اٹھانا جائز نہیں ہے اس لیےان کی خرید و فروخت بھی ناجائز اور باطل ہے، کیوں کہ ان سے فائدہ حاصل کرنے کو شریعت مطہرہ یعنی قرآن کریم اور حدیث میں صراحت سے ناجائز قرار دیا گیا ہے، تاہم ایسی چیزیں جن کو کھانے پینے کے استعمال میں لانے سے شریعت نے کسی علت کی بنا پر منع کیا ہے اور ناجائز قرار دیا ہے، اور کھانے پینے کے علاوہ دیگر امور میں انتفاع سے منع نہیں کیا، تو شرعا ان چیزوں کے استعمال کی ان امور میں بہر حال گنجائش ہوگی اور اس کی خرید و و فروخت کی بھی اجازت ہوگی، چنانچہ حلال جانور کے گوبر کو کھانا ناجائز ہے، لیکن دوسرے کاموں میں اس کا استعمال جائز ہے لہذا اس کی خرید و فروخت بھی جائز ہے۔
مردار جانور (وہ حلال جانور جس کو شرعی طریقہ پر ذبح نہ کیا گیا ہو) اور حرام جانور کے سارے اجزاء نا پاک اور حرام ہیں، البتہ وہ اجزاء جن میں خون سرایت نہیں کرنا، جیسا کہ ہڈی، سینگ، کُھر،اُون اور بال وغیرہ (بعض فقہاء کے ہاں پٹھے اور دودھ بھی) یہ اجزاء پاک ہیں اور اسی طرح کھال بھی دباغت دینے سے پاک ہو جاتی ہے تو ان کی خرید و فروخت اور ان سے فائدہ حاصل کرنا جائز ہوگا۔
لہٰذا صورتِ مسئولہ 1۔میں ڈیری فامز والے مردار جانوروں یا ان کے بچوں کے صرف وہی اعضاء استعمال کرسکتے ہیں جن میں زندگی سرایت نہیں کرتی، مثلاً : بال، اُون، سینگ، کُھر، خشک ہڈی، دانت اور دباغت دینے کے بعد کھال اس کے علاوہ دیگر اعضاء کو استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔
2۔اگر مردارجانوروں کی ہڈیوں پر دسومت اور چکناہٹ ہو تو ان کو مرغیوں اور مویشیوں کی خوراک میں استعمال کرنا جائز نہیں ہے، البتہ دسومت اور چکناہٹ کے خشک ہوجانے کے بعد استعمال کرنا جائز ہے۔
3۔مردار جانوروں کے خون، گوشت اور دیگر آلائشوں کو مرغی کی فیڈ میں استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔
4۔ مردہ جانوروں کی چربی اور اس سے حاصل ہونے والے تیل کی خریدوفروخت کرناجائز نہیں ہے اسی طرح مردہ جانور کی چربی سے حاصل ہونے والے تیل کو صابن سازی اور ٹیکسٹائل میں استعمال کرنا جائز نہیں ہے، البتہ اگر مردار کی چربی سے صابن اور ٹیکسٹائل میں جو اشیاء تیار ہوگئی ہوں انقلابِ مالیت کی وجہ سے ان کو استعمال کرنا جائز ہوگا۔
نوٹ :سات اعضاء ایسے ہیں کہ جن کا استعمال اور خریدوفروخت کسی قسم کے جانور (حلال جانور، مردارجانور اور حرام جانور) سے بھی جائز نہیں ہے،وہ یہ ہیں:
1۔خون۔2۔غدود۔3۔ مثانہ۔4۔ پتہ۔5۔کپورے/ خصیے۔6۔نر کی شرم گاه۔7۔مادہ کی شرم گاہ۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
"إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمْ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنزِيرِ وَمَا أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللَّهِ". (البقرة : 173)
ترجمہ :
"اللہ نے تو تم پر صرف حرام کیا ہے مردار کو اور خون کو ( جو بہتا ہو ) اور خنزیر کے گوشت کو (اس طرح کے سب اجزاء کو بھی ) اور ایسے جانور کو جو بقصد تقرب) غیر اللہ کیلئے نامزد کر دیا ہو۔" (ازبیان القرآن)
تفسیر مظہری میں ہے :
"واجمعوا على انه لا يجوز بيع الميته ولا أكل ثمنه ولا الانتفاع بشحمه ولا بجلده قبل الدباغ".
(سورة البقرة، الآیة : 173، ج : 1، ص : 188، ط : دار الکتب العلمیة)
أحكام القرآن للجصاص میں ہے :
"قال أصحابنا: لا يجوز الانتفاع بالميتة على وجه ولا يطعمها الكلاب والجوارح لأن ذلك ضرب من الانتفاع بها، وقد حرم الله الميتة تحريما مطلقا معلقا بعينها مؤكدا به حكم الحظر فلا يجوز الانتفاع بشيء منها إلا أن يخص شيء منها بدليل يجب التسليم له".
(باب تحريم الميتة، ج : 1، ص : 130، ط : دار الكتب العلمية)
مشكاة المصابيح میں ہے :
"وعن جابر أنه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول عام الفتح وهو بمكة: إن الله ورسوله حرم بيع الخمر والميتة والخنزير والأصنام . فقيل: يا رسول الله أرأيت شحوم الميتة؟ فإنه تطلى بها السفن ويدهن بها الجلود ويستصبح بها الناس؟ فقال: لا هو حرام . ثم قال عند ذلك: قاتل الله اليهود إن الله لما حرم شحومها أجملوه ثم باعوه فأكلوا ثمنه".
(كتاب البيوع، باب الكسب وطلب الحلال، الفصل الأول، ج : 1، ص : 247، ط : رحمانیة)
ترجمہ :
"حضرت جابر سے روایت ہے۔ کہ میں نے فتح مکہ والے سال جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے سنا کہ اللہ اور اس کے رسول نے شراب، مردار، سور اور بتوں کی خرید و فروخت کو حرام قرار دیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ یا رسول اللہ ! آپ یہ بتلائیں کہ ہمارے لیے مردار کی چربی کا کیا حکم ہے۔ وہ کشتیوں پر ملی جاتی ہے اسی طرح چمڑوں کو بھی اس کے ذریعے چکنا کیا جاتا ہے اور چراغ جلانے کے کام بھی آتی ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ مردار کی چربی حرام ہے۔ اس سے نفع اٹھانا جائز نہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت یہ بھی فرمایا کہ اللہ تعالیٰ یہود پر لعنت کرے کہ اللہ نے جب جانوروں کی چربی ان پر حرام کر دی تو یہود نے چربی کو پگھلا کر اس کو فروخت کر کے اس کے مال کو کھانا شروع کر دیا۔ یہ بخاری و مسلم کی روایت ہے۔"(ازمظاہرِ حق)
مرقاة المفاتيح میں ہے :
"(هو) : أي الانتفاع به (حرام) : أي: ممنوع: قال الطيبي رحمه الله: الضمير المرفوع راجع إلى مقدر بعد كلمة الاستخبار، وكلمة (لا) رد لذلك المقدر، وهو يحتمل أمرين أحدهما: أخبرني أيحل انتفاع شحوم الميتة، والثاني: هو المراد: قال النووي رحمه الله: معنى قوله: " لا هو حرام لا تبيعوها فإن بيعها حرام، فالضمير في (هو) يعود إلى البيع لا الانتفاع، وهذا هو الصحيح عند الشافعي وأصحابه، وعند الجمهور لا يجوز الانتفاع به في شيء من ذلك أصلا لعموم النهي ; إلا ما خص وهو الجلد المدبوغ".
(کتاب البیوع، باب الكسب وطلب الحلال، ج : 6، ص : 14، ط : دار الکتب العلمیة)
التجريد للقدوری میں ہے :
"جواز الانتفاع يدل على البيع إلا أن يمنع مانع، وهناك حرمته منعت البيع بعد جوازه".
(كتاب الطهارة، مسألة 8 :جواز بيع الجلد المدبوغ، ج : 1، ص : 88، ط : دار السلام القاهرة)
فتاویٰ شامی میں ہے :
"(قوله بخلاف الودك) أي دهن الميتة؛ لأنه جزؤها فلا يكون مالا ابن ملك: أي فلا يجوز بيعه اتفاقا، وكذا الانتفاع به لحديث البخاري "إن الله حرم بيع الخمر والميتة والخنزير والأصنام، قيل: يا رسول الله أرأيت شحوم الميتة فإنه يطلى بها السفن ويدهن بها الجلود ويستصبح بها الناس؟ قال: لا، هو حرام". الحديث (قوله كعصبها وصوفها) أدخلت الكاف عظمها وشعرها وريشها ومنقارها وظلفها وحافرها فإن هذه الأشياء طاهرة لا تحلها الحياة فلا يحلها الموت، ويجوز بيع عظم الفيل والانتفاع به في الحمل والركوب والمقاتلة منح ملخصا ط."
(کتاب البیوع، باب البيع الفاسد، ج : 5، ص : 73، ط : سعید)
وفيه ايضا :
"(كره تحريما) وقيل تنزيها والأول أوجه (من الشاة سبع الحياء والخصية والغدة والمثانة والمرارة والدم المسفوح والذكر) للأثر الوارد في كراهة ذلك.......(قوله كره تحريما) لما روى الأوزاعي عن واصل بن أبي جميلة عن مجاهد قال: كره رسول الله صلى الله عليه وسلم من الشاة الذكر والأنثيين والقبل والغدة والمرارة والمثانة والدم. ، قال أبو حنيفة: الدم حرام وأكره الستة، وذلك لقوله عز وجل {حرمت عليكم الميتة والدم} [المائدة: 3]- الآية فلما تناوله النص قطع بتحريمه وكره ما سواه، لأنه مما تستخبثه الأنفس، وتكرهه وهذا المعنى سبب الكراهية - لقوله تعالى - {ويحرم عليهم الخبائث} [الأعراف: 157]- زيلعي. وقال في البدائع آخر كتاب الذبائح: وما روي عن مجاهد فالمراد منه كراهة التحريم بدليل أنه جمع بين الستة وبين الدم في الكراهة والدم المسفوح محرم".
(کتاب الخنثیٰ، مسائل شتى، ج : 6، ص : 749)
بدائع الصنائع میں ہے :
"(وأما) الأجزاء التي لا دم فيها فإن كانت صلبة كالقرن والعظم والسن والحافر، والخف والظلف والشعر والصوف، والعصب والإنفحة الصلبة، فليست بنجسة عند أصحابنا.
وقال الشافعي: الميتات كلها نجسة لظاهر قوله تعالى {حرمت عليكم الميتة} [المائدة: 3] والحرمة - لا للاحترام - دليل النجاسة، ولأصحابنا طريقان: أحدهما - أن هذه الأشياء ليست بميتة؛ لأن الميتة من الحيوان في عرف الشرع اسم لما زالت حياته لا بصنع أحد من العباد، أو بصنع غير مشروع ولا حياة في هذه الأشياء فلا تكون ميتة، والثاني - أن نجاسة الميتات ليست لأعيانها بل لما فيها من الدماء السائلة والرطوبات النجسة ولم توجد في هذه الأشياء".
(کتاب الطهارة، فصل في الطهارة الحقيقية، ج : 1، ص : 63، ط : سعید)
وفيه ايضا :
"وأما بيان ما يحرم أكله من أجزاء الحيوان المأكول فالذي يحرم أكله منه سبعة: الدم المسفوح، والذكر، والأنثيان، والقبل، والغدة، والمثانة، والمرارة لقوله عز شأنه {ويحل لهم الطيبات ويحرم عليهم الخبائث} [الأعراف: 157] وهذه الأشياء السبعة مما تستخبثه الطباع السليمة فكانت محرمة".
(كتاب الذبائح والصيود، فصل في بيان ما يحرم أكله من أجزاء الحيوان المأكول، ج : 5، ص : 61)
وفيه ايضا :
"ولا ينعقد بيع الميتة والدم؛ لأنه ليس بمال.....وأما عظم الميتة وعصبها، وشعرها، وصوفها، ووبرها، وريشها، وخفها وظلفها، وحافرها فيجوز بيعها، والانتفاع بها - عندنا".
(کتاب البیوع، فصل في الشرط الذي يرجع إلى المعقود عليه، ج : 5، ص : 141/42)
النتف في الفتاوى میں ہے :
"ما يكره من الشاة المذبوحة : قال ويكره من الشاة المذبوحة سبعة اشياء
1 - الذكر 2 والحياء 3 والغدة 4 والمرارة 5 والمثانة 6 والانثيان 7 والدم الذي يخرج من اللحم او الكبد او الطحال واما الدم المسفوح فانه حرام وهو من المحرمات الاصلية..........مَا يحل من الْميتَة :قَالَ وَيحل من الْميتَة خَمْسَة عشر شَيْئالا الْخِنْزِير فانه لَا ينْتَفع بِشَيْء من جثته سوى بعض شعره فانه قد رخص فِيهِ للاسفاكة
1 - الصُّوف 2 والوبر 3 وَالشعر 4 والقرن 5 وَالسّن 6 وَالظفر 7 والعظم 8 والظلف فِي قَول الْفُقَهَاء وابي عبد الله وَفِي قَول الشَّافِعِي لَا يحل والعاشر الْجلد اذا دبغ فقد طهر فِي قَول الْفُقَهَاء وابي عبد الله وَفِي قَول مَالك وابي ثَوْر لَا يحل الْجلد وان دبغ وَالْحَادِي عشر الْبَيْضَة وَالثَّانِي عشر اللَّبن حَلَال فِي قَول ابي حنيفَة وابي عبد الله لَان الْمَوْت لَا يلْحقهُ وَفِي قَول الشَّافِعِي كِلَاهُمَا مكروهان وَفِي قَول ابي يُوسُف وَمُحَمّد وَالشَّيْخ السِّتَّة مُبَاحَة وَاللَّبن مَكْرُوه وَالثَّالِث عشر العصب فِي قَول اكثر الْفُقَهَاء وَفِي قَول الشَّيْخ هُوَ مَحْظُور عَنهُ وَالرَّابِع عشر الْحَافِر وَالْخَامِس عشر المنقار وَقد قَالَ بعض الْفُقَهَاء ان المصران والمثانة والكرش اذا دبغت فقد طهرت
واما جُلُود السبَاع اذا ذبحت فقد حلت فِي قَول ابي حنيفَة واصحابه وان لم تدبغ واما فِي قَول ابي عبد الله وَالشَّافِعِيّ فانه لَا تحل الا بالدباغ
(كتاب الذبائح والصيد، ما يكره من الشاة المذبوحة....، ج : 1، ص : 233/34، ط : مؤسسة الرسالة)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144602102754
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن