بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1446ھ 19 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

کیا مردے سنتے ہیں اور قبرستان میں داخلے کے وقت کیے جانے والے سلام کا جواب دیتے ہیں؟/ ایصالِ ثواب کا حکم/ مردے کو کیا زندوں کی خبر ملتی ہے اور ارواح کیا آپس میں ملتی ہیں؟


سوال

1-  کیا مُردہ سنتا ہے؟

2-  قبرستان میں داخلے کے وقت جو سلام کیا جاتا ہے اس کا جواب مردوں کی طرف سے ملتا ہے؟

3-  مُردے کے  ایصال ثواب کے  لیے آج کل رائج کھانے کی دعوت یا اس کی تقسیم جائز ہے؟

4-  کیا مُردے کی روح کو ان کے عزیز و اقارب کے حالات سے آگاہی ملتی ہے؟

5-  کیا عالمِ ارواح میں دنیا میں  قائم حقیقی رشتے دار کی روحیں ایک دوسرے کو جانتے ہیں؟ 

جواب

1-  عام مردوں کے قبروں میں سننے  یا نہ سننے سے متعلق صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے  دور  سے ہی دو رائے چلی آرہی ہیں، راجح بات یہ ہے کہ  احادیثِ  مبارکہ  میں جن مواقع پر مردوں کے سننے کا ذکر آیا ہے، ان مواقع پر تو مردوں کا سننا یقینی طور پر ثابت ہے، اس کے علاوہ احوال میں بھی مردے قبروں  میں سن  سکتے  ہیں۔

ملحوظ رہے کہ انبیاءِ کرام علیہم السلام اپنی قبورِ مبارکہ میں حیات ہیں، اور از روئے حدیثِ مبارک رسول اللہ ﷺ  قبر شریف پر آکر درود و سلام پڑھنے والے کا سلام سن کر خود جواب دیتے ہیں، اور جو لوگ دور سے درود و سلام پڑھیں ان کا سلام فرشتے خدمتِ اقدس میں پہنچادیتے ہیں، چناں چہ رسول اللہ ﷺ اس کا جواب دیتے ہیں، بہرحال مردوں کے سننے یا نہ سننے کے حوالے سے اختلافِ رائے کا تعلق انبیاءِ کرام علیہم السلام کے اپنی قبورِ مبارکہ میں سننے سے نہیں ہے۔

سماعِ موتی کے مسئلے کے حوالے سے مزید تفصیل کے لیے درج ذیل لنک پر فتویٰ ملاحظہ کیجیے:

امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سماعِ موتی کے قائل ہیں

2-  قبرستان کے پاس سے گزرتے وقت کیے جانے والے سلام کو مردے سنتے ہیں اور جواب بھی دیتے ہیں۔ احادیثِ  مبارکہ میں ہے کہ   جب کوئی آدمی اپنے جان پہچان والے مسلمان بھائی کی قبر کے پاس سے گزرتا ہے اور سلام کرتا ہے تو مردہ اسے پہچانتا ہے اور سلام کا جواب دیتا ہے، اور اگر وہ مردہ اس کو پہلے نہیں پہنچانتا تھا تو بھی  تو بھی خوش ہوتا ہے اور سلام کا جواب دیتا ہے۔

3- ایصالِ  ثواب کے لیے اجتماع، دن اور تاریخ کا اہتمام اور  اس میں قیود ورسوم اور اہلِ  میت کی طرف سے دعوت کرنا،  یہ سب امور قرآن وحدیث سے ثابت نہ ہونے کی وجہ سے ثواب سمجھ کر کرنا جائز نہیں ہیں۔ ان تمام امور اور رسوم سے بچنا بے حد ضروری ہے۔

باقی ایصالِ ثواب کا طریقہ یہ ہے کہ کوئی بھی نیک کام کرنے کے بعد جو ثواب ملتا ہے، وہ اپنے مرحومین میں سے جس کو پہنچانا چاہتے ہیں  پہنچا دیں۔ اور یہ کہیں کہ: اے اللہ! اس نیک کام، مثلاً: تلاوت، نماز، درود شریف، ذکرواذکار، اور صدقہ  و خیرات  سے جو ثواب ملا ہے وہ فلاں فلاں  شخص تک پہنچا دیں تو ثواب پہنچ جاتا ہے۔

4- مردوں کی روح کو اس کے زندہ عزیزواقارب کے اعمال وحالات سے  آگاہی ملتی ہے، اگر مرحوم کے عزیزواقارب کے نیک اعمال ہیں تو اس سے مردے کی روح خوش ہوتی ہے، اور اگر  بُرے اعمال ہیں تو مردے کی روح کو رنج پہنچتا ہے اور وہ افسردہ ہوتی ہے۔

5- عہدِ الَست  ثابت  ہے اور اسے عہد میثاق بھی کہتے ہیں۔ اور بعض روایات میں اس کا بھی ذکر ہے کہ  عالم ارواح میں دنیا میں قائم  حقیقی رشتہ داروں کی روحیں ایک دوسرے کو جانتی تھی۔ لیکن جمہور  مفسرین اور محدثین  آیت میثاق کی تفسیر یوں بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے از ل میں حضرت آدم علیہ السلام کی  تمام اولاد کو جو قیامت تک پیدا ہونے والی تھی، ان کی پشت سے نکالا اور ان سے پوچھا کہ میں تمہارا پروردگار نہیں۔ سب نے  اقرار کیا اور  "بلٰى" کہا کہ بے شک تو ہمارا پروردگار ہے، پھر ان کو آدم علیہ السلام کی پشت میں واپس کر دیا اور یہی مضمون بے شمار احادیث   صحیحہ سے ثابت ہے اور یہی اہلِ  سنت والجماعت کا مذہب ہے، اور  مقصود یہ ہے کہ اللہ کی محبت اور اس کی معرفت انسان کی فطرت میں داخل ہے۔(از تفسیر معارف القرآن/ حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلوی صاحب نوراللہ مرقدہ/ ج: 3، صفحہ:210)

اور اگر سائل کا مقصد انسان کے مرنے کے بعد ان کی ارواح کے اجتماع اور آپس میں  ملاقات اور پہچاننے کے بارے میں سوال کرنا ہے، تو نیک لوگوں کی ارواح کا آپس میں ملنا، بلکہ نئی آنے والی کا بے قراری سے استقبال کرنا اور دنیا میں موجود زندہ رشتہ داروں کے بارے میں سوال کرنا احادیث سے ثابت ہے، باقی جو گناہ گار لوگ ہیں، ان کا ذکر  حدیث میں نہیں ہے۔

حدیث شریف میں ہے:

"حدثنا عبد الرزاق حدثنا سفيان عمن سمع أنس بن مالك يقول قال النبي صلى الله عليه وسلم إن أعمالكم تعرض على أقاربكم وعشائركم من الأموات فإن كان خيرا استبشروا به وإن كان غير ذلك قالوا: اللهم لا تمتهم حتى تهديهم كما هديتنا."

(مسند الإمام أحمد بن حنبل، ج: 20، صفحہ: 114، برقم: 12683، ط:  مؤسسة الرسالة)

 شرح الصدور بشرح حال الموتى والقبورللسيوطي میں ہے:

"أخرج إبن أبي الدنيا في كتاب القبور عن عائشة رضي الله عنها قالت قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ما من رجل يزور قبر أخيه ويجلس عنده إلا إستأنس ورد عليه حتى يقوم. وأخرج أيضا والبيهقي في الشعب عن أبي هريرة رضي الله عنه قال إذا مر الرجل بقبر يعرفه فسلم عليه رد عليه السلام وعرفه وإذا مر بقبر لا يعرفه فسلم عليه رد عليه السلام. وأخرج إبن عبد البر في الإستذكار والتمهيد عن إبن عباس رضي الله عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ما من أحد يمر بقبر أخيه المؤمن كان يعرفه في الدنيا فيسلم عليه إلا عرفه ورد عليه السلام صححه عبد الحق. وأخرج إبن أبي الدنيا في القبور والصابوني في المائتين عن أبي هريرة رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ما من عبد يمر على قبر رجل يعرفه في الدنيا فيسلم عليه إلا عرفه ورد عليه السلام."

(باب زيارة القبور وعلم الموتى بزوارهم ورؤيتهم لهم، ص: 201، ط: دار المعرفة - لبنان)

فتاوی شامی میں ہے:

"ويكره اتخاذ الضيافة من الطعام من أهل الميت لأنه شرع في السرور لا في الشرور، وهي بدعة مستقبحة: وروى الإمام أحمد وابن ماجه بإسناد صحيح عن جرير بن عبد الله قال " كنا نعد الاجتماع إلى أهل الميت وصنعهم الطعام من النياحة ". اهـ. وفي البزازية: ويكره اتخاذ الطعام في اليوم الأول والثالث وبعد الأسبوع ونقل الطعام إلى القبر في المواسم، واتخاذ الدعوة لقراءة القرآن وجمع الصلحاء والقراء للختم أو لقراءة سورة الأنعام أو الإخلاص. والحاصل أن اتخاذ الطعام عند قراءة القرآن لأجل الأكل يكره. وفيها من كتاب الاستحسان: وإن اتخذ طعاما للفقراء كان حسنا اهـ وأطال في ذلك في المعراج. وقال: وهذه الأفعال كلها للسمعة والرياء فيحترز عنها لأنهم لا يريدون بها وجه الله تعالى. اهـ.

(کتاب الصلاۃ، بات صلاۃ الجنازۃ، مطلب فی کراھیۃ الضیافۃ مک اھل المیت، ج: 2، صفحہ: 240 و241، ط: ایچ، ایم، سعید)

وفیہ ایضا:

"وفي شرح اللباب ويقرأ من القرآن ما تيسر له من الفاتحة وأول البقرة إلى المفلحون وآية الكرسي - وآمن الرسول - وسورة يس وتبارك الملك وسورة التكاثر والإخلاص اثني عشر مرة أو إحدى عشر أو سبعا أو ثلاثا، ثم يقول: اللهم أوصل ثواب ما قرأناه إلى فلان أو إليهم. اهـ. ... وفي البحر: من صام أو صلى أو تصدق وجعل ثوابه لغيره من الأموات والأحياء جاز، ويصل ثوابها إليهم عند أهل السنة والجماعة كذا في البدائع."

(کتاب الصلاۃ، بات صلاۃ الجنازۃ، مطلب فی القراءۃ  للمیت واہداء ثوابہا لہ، ج: 2، صفحہ: 243، ط: ایچ، ایم، سعید)

حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح میں ہے:

"وقال ابن القيم: الأحاديث والآثار تدل على أن الزائر متى جاء علم به المزور وسمع سلامه وأنس به ورد عليه وهذ عام في حق الشهداء وغيرهم وأنه لا توقيت في ذلك."

(کتاب الصلاۃ، باب أحكام الجنائز، فصل في زيارة القبور، ص: 620، ط: دار الكتب العلمية بيروت - لبنان)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

"سوال(317): مرنے والے کو مرنے کے بعد اپنے ماں باپ سے کوئی تعلق رہتا ہے؟

الجواب حامدومصلیاً: رہتا ہے، اس طرح کہ میت کو ان کے اعمال کی اطلاع دی جاتی ہے، اگر اچھے اعمال ہیں  تو میت کی روح کو خوشی ہوتی ہے، اگر بُرے اعمال ہیں تو رنج ہوتا ہے، اور وہ رُوح ان کی اصلاح کی دعا کرتی ہے، اور یہ تعلق ماں باپ کے ساتھ خاص نہیں بلکہ جمیع اقربا اور متعارفین سے رہتا ہے۔"

(باب ما یتعلق باحوال القبور  والارواح، ج: 1، صفحہ: 611 و612، ط: مکتبہ الفاروق کراچی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144206200009

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں