بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

مرغیوں کو ذبح کرتے وقت کرنٹ دینے کا حکم


سوال

فارمی مرغی كوذ بح كرنے  سے پهلے كرنٹ لگانے  کے بارے میں میرا سوال  ہے، کیا یہ جائز ہے؟ جیسا کہ میں نے دیکھا ہے کہ  ذبح کرنے سے پہلےکرنٹ لگانے سے، پرندوں  کے كم پھڑپھڑانے کی وجہ سے خون بہنے کا وقت کم ہو جاتا ہے، تو میں جاننا چاہتا ہوں کہ کیا یہ جائز ہے اور کن شرائط پر  جائز ہے؟ میں نے ٹوئٹر پر ایک مفتی صاحب سے یہی سوال کیا تو انہوں نے جواب دیا کہ جائز ہے،بشرط یہ کہ ذبح کرنے کے بعد کچھ وقت کے لیے رکھاجائے ، لیکن ذبح کرنے کے بعد وقت کا ذکر نہیں کیا۔ برائے مہربانی اس معاملے میں میری رہنمائی فرمائیں!

جواب

صورتِ  مسئولہ میں ذبح کرنےسے پہلے مرغی یا جانور کو کرنٹ لگاکر بیہوش کرنا ،مرغی یا جانور کو اذیت و تکلیف پہنچاناہے،جو شریعت میں ناجائز و مکروہ تحریمی ہے،اس لئے یہ طریقۂ  ذبح شرعاً ناجائز ہے، اور جانور کو کرنٹ دے کر تکلیف پہنچانے کی وجہ سے گناہ بھی ہے، البتہ اگر کرنٹ لگانے کے بعدہاتھ سے  ذبح کرنے سے پہلے مرغی زندہ تھی تو   ذبح شدہ مرغی یا جانور کا گوشت حلال ہوگا، اور   اگر مرغی یا جانور کرنٹ لگانے کی وجہ سے ذبح کرنے سے پہلے مرگیا،تو وہ حرام ومردار ہوجائےگا،اور اس کا کھانا بھی ناجائز ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(وكره كل تعذيب بلا فائدة مثل قطع الرأس والسلخ قبل أن تبرد أي تسكن عن ‌الاضطراب وهو تفسير باللازم كما لا يخفى)قوله: وكره إلخ هذا هو الأصل الجامع في إفادة معنى الكراهة عناية قوله: أي تسكن عن ‌الاضطراب كذا فسره في الهداية قوله وهو تفسير باللازم لأنه يلزم من برودتها سكوتها بلا عكس."

(كتاب الذبائح، ج:6، ص:296، ط:دار الفكر بيروت)

تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق میں ہے:

"وكل ذلك مكروه؛ لأن في جميع ذلك وفي قطع الرأس زيادة تعذيب الحيوان بلا فائدة ويكره أن يجر ما يريد ذبحه إلى المذبح وأن يسلخ قبل أن يبرد لما ذكرنا."

(كتاب الذبائح، النخع وقطع الرأس والذبح من القفا، ج:5، ص:292، ط:دار الكتاب الإسلامي)

بنایہ شرح الہدایہ میں ہے:

"فالنخع أن تذبح الشاة ثم تكسر قفاها من موضع الذبح، أو تضرب لتعجل قطع حركتها، وكره هذا، ولم يحرم لأنها ذكية (وكل ذلك مكروه) أشار به إلى التفاسير الثلاث (وهذا) حصول الكراهة  (لأن في جميع ذلك وفي قطع الرأس زيادة تعذيب الحيوان بلا فائدة وهو منهي عنه) أي تعذيب الحيوان بلا فائدة منهي عنه على ما مر في الآثار المذكورة."

(كتاب الذبائح، ما يكره في الذبح، ج:11، ص:564، ط:دار الكتب العلمية بيروت)

فتاوی شامی میں ہے:

"(ذبح شاة) مريضة (فتحركت أو خرج الدم) (حلت وإلا لا إن لم تدر حياته) عند الذبح، وإن علم حياته (حلت) مطلقا (وإن لم تتحرك ولم يخرج الدم) وهذا يتأتى في منخنقة ومتردية ونطيحة، والتي فقر الذئب بطنها فذكاة هذه الأشياء تحلل، وإن كانت حياتها خفيفة وعليه الفتوى."

(کتاب الذبائح، ج:6، ص:308، ط:دار الفکر)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144507100059

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں