بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

مرتد کی بیوی کی عدت کا حکم


سوال

میرے شوہر نے اللہ پاک، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم، اہل بیت، امہات المومنین، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور قرآن پاک کی شان میں گستاخی کی ہے، وہ ایک واٹس ایپ گروپ چلاتے ہیں، جس میں یہ سب ہوتا تھا، پھر شکایت پر ان کو گرفتار کر لیا گیا، دو سال سے کورٹ میں کیس جاری ہے، ان کے گھر والوں نے بھی ان سے لاتعلقی کر لی ہے، وہ ابھی بھی جیل میں ہے۔

پوچھنا یہ ہے کہ ان حالات میں کیا میرا نکاح ان سے ختم ہو گیا؟ میں کسی اور جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہوں یا نہیں؟ اگر میری طلاق ہو گئی تو عدت کتنی ہو گی؟ اور کب سے شروع ہو گی؟ اگر نکاح برقرار  ہے تو ان سے علیحدگی کی کیا صورت ہو گی؟

وضاحت: شوہر کہتے ہیں: میں نے اسلام چھوڑ دیا ہے، بیوی نے شوہر سے پوچھا کہ اسلام چھوڑنے کے لیے کیا کرنا ہوتا ہے؟انہوں نے کہا: قرآن مجید پر پیشاب کرنا۔

جواب

جو شخص اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرتا ہو اور خود اس بات کا اقرار کرتا ہو کہ میں نے اسلام چھوڑ دیا ہے تو ان باتوں کی وجہ سے وہ شخص مسلمان نہیں رہا اور اس کا اپنی بیوی سے نکاح بھی باقی نہیں رہا۔

جب اس نے پہلی مرتبہ کفریہ جملہ کہا تھا اس وقت سےاس کا اپنی بیوی سے  نکاح ختم ہو گیا تھا، پھر اس کی بیوی کی عدت اس وقت سے شروع ہو گی جب سے اس کی بیوی اُس سے جدا ہوئی ہے، عدت تین ماہ واری ہو گی اگر حمل نہ ہو، اگر حمل ہو تو بچے کی پیدائش پر عدت مکمل ہو گی۔

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"ومن يرضى بكفر نفسه فقد كفر ... 

(ومنها) ما يتعلق بالقرآن ... تسخر بآية من القرآن وفي الخزانة، أو عاب كفر."

(کتاب السیر ، الباب التاسع ، جلد : 2 ، صفحه : 266 ، طبع : دار الفکر)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(وارتداد أحدهما) أي الزوجين (فسخ) فلاينقص عددًا (عاجل) ... بلا قضاء ... وعليه نفقة العدة.

(قوله بلا قضاء) أي بلا ‌توقف ‌على ‌قضاء ‌القاضي ... (قوله: و عليه نفقة العدة) أي لو مدخولًا بها إذ غيرها لا عدة عليها. وأفاد وجوب العدة سواء ارتد أو ارتدت بالحيض أو بالأشهر لو صغيرة أو آيسة أو بوضع الحمل، كما في البحر."

(کتاب النکاح ، جلد : 3 ، صفحه : 193 ، طبع : سعيد)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(قوله: وإذا وطئت المعتدة) أي من طلاق، أو غيره هو منتقى، وكذا المنكوحة إذا وطئت بشبهة ثم طلقها زوجها كان عليها عدة أخرى وتداخلتا."

(کتاب الطلاق، باب العدۃ، مطلب فی وطء المعتدۃ بشبھة، ج: 3 ، ص : 518 ، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144603102123

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں