بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1446ھ 16 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

مسافر کی قضائے عمری کا حکم


سوال

مسافر کی قضائے عمری کا کیا حکم ہے؟ شریعت اس بارے میں کیا کہتی ہے؟

جواب

واضح رہے کہ دورانِ سفر  جان بوجھ کر نمازیں قضا نہیں کرنی چاہییں، تاہم جو نمازیں بحالتِ سفر کسی وجہ سے پڑھنے سے رہ گئی ہوں تو ان کی قضا حضر (مقیم ہونے کی حالت) میں کی جاسکتی ہیں، اسی طرح جو نمازیں حضر  میں قضا ہوئی ہیں ان کی قضا سفر میں بھی ہوسکتی ہیں، البتہ سفر میں چار رکعات والی فرض نماز (ظہر، عصر اور عشا) قضا ہو تو اس کی قضا میں قصر (دو دو رکعت) ہی پڑھنا لازم ہے، خواہ اپنے مقام پر پڑھے یا حالتِ سفر میں،  اور جو نمازیں حضر میں قضا ہوئی ہوں، اس کی قضا مکمل (یعنی چار رکعات والی نماز کی قضا میں چار رکعت ہی) پڑھنا لازم ہے،  اگرچہ سفر کے دوران ہی پڑھے، جب کہ فجر کی دو رکعت فرض، مغرب کی تین رکعت فرض اور عشاء کے فرض نماز کے ساتھ تین رکعت وتر کی قضا مکمل پڑھی جائے گی، خواہ ان نمازوں کی قضا سفر میں ہوئی ہوں یا حضر میں، اور ان کی قضا سفر میں کی جارہی ہوں یا حضر میں، مکمل رکعتیں پڑھنی ضروری ہے، ان نمازوں کی قضا مکروہ اوقات کے علاوہ کسی بھی وقت کی جاسکتی ہیں، تاہم سنتوں  کی قضا نہیں کی جائے گی۔

ملحوظ رہے کہ جو نمازیں قضا ہوئی ہوں خواہ سفر میں ہوئی ہوں یا حضر میں، جلد از جلد اس کی قضا کرلینی چاہیے، اگر قضا نمازوں کی ادائیگی کی بالکل بھی قدرت نہ ہو، تو مرنے سے پہلے فدیہ ادا کرنے کی وصیت کرنا لازم ہوگا۔ ہر نماز کا فدیہ صدقۃ الفطر  کی مقدار کے برابر (پونے دو کلو گندم یا اس کی  قیمت) ہے،اور  وتر کی نماز کے ساتھ روزانہ کے چھ فدیہ ادا کرنے ہوں گے۔ فدیہ دینے کی صورت میں سفر کی قضا اور حضر کی قضا کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے، قضا سفر میں ہوئی ہو یا حضر میں فدیہ برابر ہی دینے ہوں گے۔

مجمع الانہر فی شرح ملتقی الابحر میں ہے:

"(وفائتة السفر تقضى في الحضر ركعتين وفائتة الحضر) رباعية (تقضى في السفر أربعا) لأن القضاء على حسب الأداء.

(والمعتبر في ذلك) أي وجوب الأربع أو ركعتين (آخر الوقت) لأن الوجوب يتعلق بآخر الوقت حتى لو سافر آخر الوقت قصر وإن أقام المسافر آخر الوقت تمم كما في الاختيار."

(كتاب الصلاة، باب صلاة المسافر، ج:1، ص:164، ط:دار إحياء التراث العربي بيروت)

فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

"أن الفائتة تقضي على الصفة التي فاتت عنه لعذر وضرورة فيقضي مسافر في السفر ما فاته في الحضر من الفرض الرباعي أربعا والمقيم في الإقامة ما فاته في السفر منها ركعتين والقضاء فرض في الفرض وواجب في الواجب سنة في السنة ثم ليس للقضاء وقت معين بل جميع أوقات العمر وقت له إلا ثلاثة، وقت طلوع الشمس، ووقت الزوال، ووقت الغروب فإنه لا تجوز الصلاة في هذه الأوقات، كذا في البحر الرائق."

(كتاب الصلاة، الباب الحادي عشر في قضاء الفوائت، ج:1، ص:121، ط:المكتبة الرشيدية كوئته)

فتاویٰ شامی میں ہے:

وقضاء الفرض والواجب والسنة فرض وواجب وسنة) لف ونشر مرتب، وجميع أوقات العمر وقت للقضاء إلا الثلاثة المنهية.

وفي الرد: (قوله وقضاء الفرض إلخ) لو قدم ذلك أول الباب أو آخره عن التفريع الآتي لكان أنسب. وأيضا قوله والسنة يوهم العموم كالفرض والواجب وليس كذلك، فلو قال وما يقضى من السنة لرفع هذا الوهم رملي."

فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

"إذا مات الرجل وعليه صلوات فائتة فأوصى بأن تعطى كفارة صلواته يعطى لكل صلاة نصف صاع من بر وللوتر نصف صاع ولصوم يوم نصف صاع من ثلث ماله....... وفي فتاوى الحجة وإن لم يوص لورثته وتبرع بعض الورثة يجوز ويدفع عن كل صلاة نصف صاع حنطة منوين."

(كتاب الصلاة، الباب الحادي عشر في قضاء الفوائت، ج:1، ص:125، ط:المكتبة الرشيدية كوئته)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144604102770

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں