میں نے آج سے تقریبًا نو سال پہلے ایک عیسائی عورت کو مسلمان کیا اور پھر اس کے ساتھ دس دن بعد شریعت کے مطابق نکاح کیا ، اس کے بعد وہ لڑکی اپنے ماں باپ کے پاس گئی اور ان کو بتایا کہ اس نے مسلمان ہوکر مجھ سے نکاح کیا ہے ، اس لیے کہ وہ چاہتی تھی کہ رخصتی گھر والوں کی رضامندی سے ہو، چار ماہ بعد ان کی رضامندی سے رخصتی ہوئی اور عیسائی مذہب کے مطابق دوبارہ نکاح بھی ہوگیا ، ہمیں اللہ تعالی نے ایک بیٹا دیا ، لیکن میں سمجھ رہا تھا کہ یہ دل سے مسلمان ہے جب کہ وہ حقیقت میں دل سے مسلمان نہیں ہوئی تھی ، یہ بات اس نے کی کہ میں دل سے مسلمان نہیں ہوئی،اس کے بعد جھگڑے ہوئے اور علیحدگی بھی ہوگئی ، کچھ عرصہ بعد بچے کی محبت اور دینی معلومات نہ ہونے کی وجہ سے ہم دوبارہ ساتھ رہنے لگے ، اب مجھے دین کے بارے تھوڑا بہت علم ہوا ، تو پتہ چلاکہ شریعت میں یہ معاملہ کچھ اور ہے، میری بیوی اب بھی عیسائی مذہب پر ہے ،اور میرا بیٹا اب سات سال کا ہوچکا ہے،اب میں پریشان ہوں کہ اس صورت میں کیا ہوگا ؟کہ ہماراگھر نہ ٹوٹے اور رشتہ برقرار رہے :
(1):اگر میری بیوی سے میرا رشتہ جائز نہیں تو مجھے کیا کرنا چاہیے؟
(2):اگر وہ دو بارہ دل سے اسلام قبول کرے تو کیا حکم ہے؟
(3):اگر وہ اسلام قبول نہیں کرتی تو بیٹے کی پرورش کا کیا حکم ہوگا ؟بیٹا سات سال کا ہے۔
(4):بیٹے کا کیا ہوگا وہ دونوں کے پاس رہنا چاہتا ہے ، اگر اس کے دین کو خطرہ ہو تو میں اس کی والدہ کو بتائے بغیر اس کو چھپا کے رکھ لو ں توگناہ تو نہیں ہو گا؟
(5):اگر بالفرض عدالتی طور پر وہ بیٹے کومجھ سے لے لے او ر میں اپنی ممکنہ کوشش کے باوجود اس کو حاصل نہیں کرسکو ں تو اس میں مجھ پر کوئی گناہ ہوگا یا نہیں؟ او رکیا اس صورتحال میں اپنے بیٹے کے دین کی خاطر چھپ چھپ کہ کسی دور جگہ جاسکتاہوں،تاکہ کسی کو پتہ نہ چلے اور وہاں آباد ہوجاؤں، اس صورت میں شرعًا مجھ پر کوئی گناہ ہوگا یا نہیں؟
وضاحت :
(1):مذکورہ خاتون نے اسی دارالافتاء میں اسلام قبول کیا تھا اور اسے سند بھی جاری کردی گئی تھی۔
(2):دوبارہ نکاح گر جا میں ہوا ، جہاں سائل سے کچھ بھی نہیں کہلواگیا ، بلکہ نکاح کی تقریب ہوئی جس میں ان کے مذہبی پیشوا نے خود ہی دعائیہ کلمات کہے تھے ۔
(3): خاتون اب بھی عیسائیت پر برقرار ہے۔
(2،1):صورت مسئولہ میں آپ کی بیوی نےجب اپنے سابقہ مذہب سے تائب ہوکر مذہب اسلام قبول کرنے کا اقرار کرلیا تھا تو شرعًا وہ مسلمان ہوگئی تھی ، اس کے بعد شرعی گواہوں کی موجودگی میں آپ کے اس سے نکاح کرلینے سے نکاح بھی ہوگیا تھا، اس کے بعد دوبارہ نکاح کرنے کی ضرورت نہیں تھی، لڑکی والوں کے اصرار پر گرجا میں جاکر عیسائیو ں کی رسم کے مطابق گرجا گھر میں جاکر دوبارہ نکاح کرناجائز نہیں تھا ، عیسائی مذہب کے مطابق نکاح کرتے ہوئے اگر آپ سے کوئی کفریہ کلمہ نہیں کہلوایا گیا اور نکاح میں بھی کوئی کفریہ بات نہیں کی گئی تھی تو اس سے اگرچہ کفر لازم نہیں آیا لیکن گرجا میں جانے کی وجہ سے آپ گناہ گار ضرور ہوئے اس پر توبہ واستغفار لازم ہے، پھر جب آپ کی بیوی نے یہ کہہ کر کہ ’’میں تو دل سے مسلمان نہیں ہوئی تھی ‘‘ عیسائی مذہب پر عمل شروع کردیاتو وہ دائرہ اسلام سے خارج ہوگئی، لیکن عورت بدستور سائل کے نکاح میں رہے گی ، تاہم اس سے ازدواجی تعلق قائم کرناجائز نہیں، یہاں تک کہ وہ تائب ہوجائے، اگر وہ توبہ تائب ہوکر دوبارہ اسلام قبول کرنے کا اقرار کرلے توتجدیدِ نکاح کرنےکے ساتھ آپ کا اس سے نکاح برقرار رہے گا اور ازدواجی تعلق قائم کرنا جائز ہوگا، اگر وہ توبہ کرنے سے انکار کردے اور عیسائیت پر مصر رہے تو پھر آپ کا اس سے ازدواجی تعلق رکھنا جائز نہیں ہوگا، البتہ آپ کےنکاح میں بدستور رہےگی۔
(3):اسلام سے پھر جانے کی وجہ سے اسے بچہ اپنے پاس رکھنے کا حق نہیں ہے ،بچہ آپ کی پرورش میں رہے گا۔
(4):اگر وہ عیسائیت پر مصر رہتی ہے تو پھر بچہ اس کے حوالےکرنا جائز نہیں ہے ،بلکہ آپ کا بچے کو اپنے پاس رکھنا لازم ہے۔
(5):ہر ممکن کوشش کے باوجود بھی اگر بچہ آپ سے چھین کر عورت کے حوالے کردیا جائے تو آپ پر کوئی گناہ نہیں ہوگا، بلکہ بچہ اس کے حوالے کرنے والے گناہ گار ہوں گے ، بچے کے ایمان کی حفاظت کی خاطر آپ ہر ممکن اور جائز کوشش کرسکتے ہیں ۔
فتاوی شامی میں ہے:
"و في البزازية: الزوج سلطان زوجته فيتحقق منه الإكراه قوله: الزوج سلطان زوجته) يعني إن قدر على الإيقاع كما سيأتي ح، قال في البزازية: و سوق اللفظ يدل على أنه على الوفاق و عند الثاني لو بنحو السيف فإكراه، و عند محمد إن خلا بها في موضع لاتمتنع منه فكالسلطان، قلت: و ظاهر قولهم سلطان زوجته أن يتحقق بمجرد الأمر حيث خافت منه الضرر ويدل عليه ما سيذكره الشارح عن شرح المنظومة تأمل."
(كتاب الإكراه، 132/6، ط:دارالفكر بيروت)
التنویر شرح جامع الصغیر میں ہے:
"إن من حق الولد على والده أن يعلمه الكتابة، وأن يحسن اسمه، وأن يزوجه إذا بلغ". ابن النجار عن أبي هريرة.
(إن من حق الولد على والده) ومثله الجد عند فقد الأب (أن يعلمه الكتابة) أي الخط؛ لأنه عون له على دينه ودنياه (وأن يحسن اسمه) بأن يسميه بأحب الأسماء إلى الله تعالى (وأن يزوجه إذا بلغ) لأنه يعينه على حفظ فرجه وهذه أمهات الخير وإلا فإنه يلزمه أن يعلمه معالم الدين وأركانه وآدابه. (ابن النجار عن أبي هريرة) بإسناد ضعيف إلا أن له شواهد."
(حرف الهمزة،الهمزة مع اللام، 131/4، الرقم:2473، ط:مكتبة دار السلام الرياض)
الکوکب الدری میں ہے:
"قوله [خير غلامًا بين أبيه وأمه] اعلم أن مذهب الإمام في الولد أنه يتبع خير الأبوين دينا لو اختلفا دينا وإن كانا مسلمين فللأم حق الحضانة حتى يستغني عنها ثم للأب حق التربية حتى يستغني عنه بالبلوغ ثم يخير بعد ذلك وأما حديث أبي هريرة فهو بيان وقعة فلا بد أن يخص فلا يثبت به العموم في الاستحقاق حتى يكون المرجع هو التخيير فأما أن يقال كان الغلام قد ناهز الاحتلام أو يقال أن أباه كان كافرًا فخيره بينهما ودعا له اللهم أهده فخير الولد لئلا يطعنوا بالظلم فإن النبي صلى الله عليه وسلم لو قال إنه لا يستحق الأب لقال أبوه في معشر الكفار، إن محمدًا أظلمني وأخذ ولدي ظلمًا وكان فيه من المفاسد ما لا يخفى فأظهر التخيير فلما ظهر من الولد ميل إلى الأب وعار به فقال اللهم أهده وقد ثبت مثلما قلنا في الرواية الصحيحة فلا ضير في حمل هذا الحديث على تلك القضية."
(أبواب الأحكام عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، باب أن اليمين على ما يصدقه صاحبه، 352/2، ط:مطبعة ندوة العلماء الهند)
فتاوی قاضی خان میں ہے:
منكوحة ارتدت والعياذ بالله حكي عن أبي نصر وأبي القاسم الصفار أنهما قالا لا تقع الفرقة بينهما حتى لا تصل إلى مقصودها إن كان مقصودها الفرقة، وفي الروايات الظاهرة تقع الفرقة وتحبس المرأة حتى تسلم ويجدد النكاح سداً لهذا الباب عليها."
(كتاب الطلاق، فصل: الفرقةبين الزوجين، 495/1، ط:دارالكتب العلمية)
حیلہ ناجزہ میں ہے:
’’اس مجموعہ سے خلاصہ اس فتویٰ کا یہ حاصل ہوا کہ عورت بدستور سابق اس خاوند کے قبضہ میں رہے گی کسی دوسرے شخص سے ہر گزنکاح جائز نہیں ۔
لیکن جب تک تجدید اسلام کرکے تجدید نکاح نہ کرے اس وقت تک اس کے ساتھ جماع اور دواعی جماع کو جائز نہ کہا جائے گا۔‘‘
(الحیلۃ الناجزۃ ،ص:120،ط:دارالاشاعت اردوبازار کراچی)
فتاوی رحیمیہ میں ہے:
’’ مسلمان مرد نے عیسائی عورت سے اس کے دیول (گرجا) میں جا کر اس کے مذہبی قواعد کے مطابق شادی کی ، یہ شادی معتبر نہیں ہے۔ اگر در حقیقت عورت کتابیہ ہو ، لا مذہب نہ ہو، اور اپنے مذہب کے اصول کو پیغمبر کو نیز آسمانی کتاب کو ماننے والی ہو ( چاہے عمل نہ ہو ) اور اسلامی قاعدہ کے مطابق ایجاب و قبول ہو تو نکاح صحیح اور قابل اعتبار ہو گا مگر پھر اپنی مرضی سے عیسائی مذہب کے مطابق چرچ میں جا کر اولاد کو بپتسمہ کرانا شان اسلامی کے خلاف ہے اور عملاً اللہ اور رسول ﷺکی تعلیمات سے انحراف اور بے دینی کا کام ہے۔ لہذا تو بہ واستغفار اور از سرنو اسلام لانا اور از سرنو نکاح پڑھنے کا حکم عائد ہو گا ۔‘‘
(كتاب النكاح ، محرمات كا بيان،193/8،ط:دارالاشاعت کراچی)
فقط اللہ اعلم
فتوی نمبر : 144512101842
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن