بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

مسلمان اور غير مسلم كا ہدیہ قبول كرنے کا حکم


سوال

اگر کوئی انجان آدمی  اپنی خوشی سے   کچھ رقم بطور ٹپ دینا چاہے ،تو کیااس کا لینا جائز ہے؟ جب کہ دینے والا کبھی غیر مسلم ہوتا ہےاور کھبی مسلمان اور پتہ نہیں ہو تا کہ اس کا ذریعہ آمدن حرام ہے یا حلال؟ راہ نمائی فرمائیں!

جواب

 کسی   مسلمان کا  غیر مسلم  کاہدیہ قبول کرنے کے بارے میں حکم یہ ہےکہ اگر   اس میں دین کی بے توقیری نہ ہوتی ہو   یا آئندہ اس ہدیہ  کی وجہ سے کسی قسم کا ملی نقصان کا اندیشہ نہ ہویا اسی طرح اس میں کوئی دینی مصلحت ہو  نیز جو چیز ہدیہ میں دی گئی ہو وہ مسلمان کے لیے بذاتِ خود   جائز و حلال ہو،تو ایسا ہدیہ قبول کرنا جائزہےاسی طرح اگر ہدیہ کرنے والا مسلمان ہو تو جب تک اس کےمال کے بارے میں یہ معلوم نہ ہو جائے کہ اس کی اکثر آمدنی حرام ہےتواس کے دئیے ہوئے ہدیہ کو قبول کرنا جائز ہےاور اگر معلوم ہو کہ اس کی اکثر آمدنی حرام کی ہے تو اس کا ہدیہ قبول کرنا جائز نہیں ہے۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:،

" أهدى إلى رجل شيئا أو أضافه إن كان غالب ماله من الحلال فلا بأس إلا أن يعلم بأنه حرام، فإن كان الغالب هو الحرام ينبغي أن لا يقبل الهدية، ولا يأكل الطعام إلا أن يخبره بأنه حلال ورثته أو استقرضته من رجل، كذا في الينابيع."

(كتاب الكراهية، الباب الثاني عشر في الهدايا والضيافات، ج: 5، ص: 342، ط: دار الفکر)

وفیه ايضاً:

"فقد روى محمد - رحمه الله تعالى - في السير الكبير أخبارا متعارضة في بعضها أن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم قبل هدايا المشرك وفي بعضها أنه صلى الله عليه وسلم لم يقبل فلا بد من التوفيق واختلفت عبارة المشايخ رحمهم الله تعالى في وجه التوفيق فعبارة الفقيه أبي جعفر الهندواني أن ما روي أنه لم يقبلها محمول على أنه إنما لم يقبلها من شخص غلب على ظن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم أنه وقع عند ذلك الشخص أن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم إنما يقاتلهم طمعًا في المال لا لإعلاء كلمة الله و لايجوز قبول الهدية من مثل هذا الشخص في زماننا و ما روي أنه قبلها محمول على أنه قبل من شخص غلب على ظن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم أنه وقع عند ذلك الشخص أن رسول الله صلى الله عليه وسلم إنما يقاتلهم لإعزاز الدين ولإعلاء كلمة الله العليا لا لطلب المال وقبول الهدية من مثل هذا الشخص جائز في زماننا أيضا ومن المشايخ من وفق من وجه آخر فقال لم يقبل من شخص علم أنه لو قبل منه لا يقل صلابته وعزته في حقه ويلين له بسبب قبول الهدية وقبل من شخص علم أنه لايقل صلابته وعزته في حقه ولا يلين بسبب قبول الهدية كذا في المحيط لا بأس بأن يكون بين المسلم والذمي معاملة إذا كان مما لا بد منه كذا في السراجية."

(كتاب الكراهية، الباب الرابع عشر في أهل الذمة والأحكام، ج: 5، ص: 347۔348، ط: دار الفكر)

معارف القرآن( مفتی شفیع صاحب ؒ) میں ہے:

"تحقیق اس مسئلے میں یہ ہے کہ کافر کا ہدیہ قبول کرنے میں اگر اپنی یا مسلمانوں کی کسی مصلحت میں خلل آتاہو یا ان کے حق میں رائے کی کمزوری پیدا ہوتی ہو تو ان کا ہدیہ قبول کرنا درست نہیں، ہاں اگر کوئی دینی مصلحت اس ہدیہ کے قبول کرنے کی داعی ہو، مثلاً اسکے ذریعہ کافر کے مانوس ہو کر اسلام سے قریب آنے پھر مسلمان ہو  نےکی امید ہو یا اس کے کسی شر و فساد کو اس کے ذریعہ دفع کیا جا سکتا ہو تو قبول کرنےکی گنجائش      ہے۔"

(ج: 6، ص: 581، ط: مکتبہ معارف القرآن)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144509101966

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں