میری ایک عزیزہ کا انتقال ہوا ہے، اس کے ورثاء میں شوہر،دو بیٹیاں، دو پوتیاں، ایک سوتیلا بھائی (باپ شریک بھائی)، ایک سوتیلی بہن، ایک نواسا، اور دو نواسیاں حیات ہیں ۔
مرحومہ کے والدین، ایک بیٹا، ایک سگا بھائی، اور دو سگی بہنیں اس کی زندگی میں انتقال کرگئے ہیں، لیکن سوتیلابھائی جو حیات ہے وہ مرتد ہوچکا ہے، دائرہ اسلام سے خارج ہوا ہے، اور رشتہ کی نزاکت کی وجہ سے اس سے پوچھ بھی نہیں سکتے، لہذا وراثت میں جو اس کا حصہ بنے گا اس کیا کیا جائے؟کیا اس سوتیلے بھائی کاحصہ اس کی بہن کو دے دیا جائے ؟
واضح رہے کہ وراثت کے حق دار ہونے کے لیے مورِث (جس کی وفات ہوئی ہے) اور وارث کا ہم مذہب ہونا شرعا ضروری ہوتا ہے، پس کافر یا مرتد نسبی رشتہ دار کی وراثت کا شرعا حق دار نہیں ہوتا، لہذا صورتِ مسئولہ میں مرحومہ کا مرتد (باپ شریک) بھائی اس کے ترکہ سے حصہ لینے کا حق دار نہیں ہوگا۔
مسئولہ صورت میں مرحومہ کے حقوقِ متقدّمہ یعنی اگر ان پر قرض ہو، تو اسے ادا کرنے کے بعد ، اگر مرحومہ نے کوئی جائز وصیت کی ہو، تو اس کو باقی مال کے ایک تہائی ترکہ میں سے نافذ کرنے کے بعد، باقی کل ترکہ منقولہ وغیر منقولہ کے 12حصے کرکے 3 حصے شوہر کو، 4،4 حصے ہر ایک بیٹی کو، اور 1 حصہ اس کی سوتیلی بہن کو ملےگا۔
صورتِ تقسیم یہ ہے:
میت (سائل کی عزیزہ مرحومہ): 12
شوہر | بیٹی | بیٹی | سوتیلی بہن |
3 | 4 | 4 | 1 |
فیصد کے اعتبار سے سو میں سے 25 فیصد شوہر کو، 33.333 فیصد ہر ایک بیٹی کو، اور 8.333 فیصد اس کی سوتیلی بہن کو ملےگا۔
فتاویٰ عالمگیری میں ہے:
"واختلاف الدين أيضا يمنع الإرث والمراد به الاختلاف بين الإسلام والكفر."
(كتاب الفرائض، الباب الخامس في موانع الإرث، 6/ 454، ط: دار الفكر)
وفيه أيضا:
"المرتد لا يرث من مسلم ولا من مرتد مثله."
(كتاب الفرائض، الباب السادس في ميراث أهل الكفر، ميراث المرتد، 6/ 455، ط: دار الفكر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144604100800
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن