دو گھرانوں نے قربانی کے لیے ایک گائے خریدی، اس میں ایک گھر کے تین واجب حصے ہیں، یعنی ایک حصہ زید کا، ایک حصہ اس کی بیوی کا اور ایک حصہ اس کے بڑے بیٹے کا، ان تینوں کا کھانا پینا مشترک ہے۔
دوسرے گھر کے بھی تین واجب حصے ہیں، یعنی ایک حصہ بکر کا، ایک حصہ اس کی بیوی کا اور ایک حصہ اس کے بھائی کا، ان تینوں کا کھانا بھی مشترک ہے، پوچھنا یہ ہے کہ کیا اس گائے میں گھرانے کے حساب سے دو حصے بنا سکتے ہیں؟ یا افراد کے حساب سے چھ حصے بنانا ضروری ہے؟
کتبِ فقہ میں یہ مسئلہ لکھا ہے کہ اگر گھر کے افراد مل کر اجتماعی قربانی کرتے ہیں اور گوشت تقسیم کیے بغیر گھر میں اکٹھا رکھ دیتے ہیں اور پھر اسی گوشت کو پکاکر ایک ساتھ کھاتے ہیں تو ایسا کرنا جائز ہے اور اس صورت میں گوشت کو باقاعدہ تول کر حصوں کے موافق تقسیم کرنا ضروری نہیں ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ گھرانے کے اعتبار سے مذکورہ جانور کے دو حصے کر لینا کافی ہے، افراد کے حساب سے چھ حصے کرنا ضروری نہیں۔
لیکن جب جانور کو دو حصوں میں تقسیم کرنا ہو تو وزن کرکے برابری کے ساتھ دو حصوں میں تقسیم کرنا ضروری ہوگا، اندازے سے تقسیم کرنا جائز نہیں، چاہے شرکاء کمی زیادتی پر راضی ہی کیوں نہ ہوں، البتہ اگر دیگر اعضاء مثلاً کلہ، پائے، وغیرہ کو بھی گوشت کے ساتھ رکھ کر تقسیم کرلیا جائے تو پھر تول کر تقسیم کرنا لازم نہیں ہوگا، بلکہ اندازے سے کمی بیشی کے ساتھ تقسیم کرنا بھی جائز ہوگا۔
فتاویٰ شامی میں ہے:
"ويقسم اللحم وزناً لا جزافاً إلا إذا ضم معه الأكارع أو الجلد) صرفاً للجنس لخلاف جنسه.
(قوله: ويقسم اللحم) انظر هل هذه القسمة متعينة أو لا، حتى لو اشترى لنفسه ولزوجته وأولاده الكبار بدنة ولم يقسموها تجزيهم أو لا، والظاهر أنها لاتشترط؛ لأن المقصود منها الإراقة وقد حصلت."
(كتاب الأضحية ، جلد : 6 ، صفحه : 317 ، طبع : دار الفكر)
المحيط البرهاني في الفقه النعماني میں ہے:
"سبعة ضحوا بقرة وأرادوا أن يقسموا اللحم بينهم؛ إن اقتسموها وزناً يجوز ... وإن اقتسموها جزافاً إن جعلوا مع اللحم شيئاً من السقط نحو الرأس، والأكارع يجوز، وإن لم يجعلوا لايجوز؛ لأن البيع على هذا الوجه لايجوز."
(كتاب الاضحية ، الفصل الثامن ، جلد : 6 ، صفحه : 100 ، دار الكتب العلمية)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144512101048
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن