بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1446ھ 18 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

مشترکہ خاندانی نظام میں زکاۃ کے وجوب کا حکم۔


سوال

اگر کسی خاندان کے تین بھائی اکٹھے رہتے ہوں، جبکہ ہر بھائی کی آمدنی الگ الگ ہو، اور ان کی بیویوں کو کچھ سونا میکے سے ملا ہو اور کچھ شوہر کے خاندان کی طرف سے، تو ان پر زکاۃ کا وجوب کس حساب سے ہوگا؟ نیز تینوں بھائی اپنی آمدنی اپنے پاس رکھتے ہوں، البتہ ماہانہ گھریلو اخراجات مشترکہ طور پر برداشت کرتے ہوں۔ آج کل بہت سے گھروں میں ایسا ہی نظام رائج ہے، لیکن اس کے زکوٰۃ کے احکام کی صحیح سمجھ نہیں۔

جواب

واضح رہے کہ زکوٰۃ ایک آزاد، عاقل اور بالغ مسلمان پر اس وقت فرض ہوتی ہے جب وہ صاحبِ نصاب ہو ۔ صاحبِ نصاب سے مراد وہ شخص ہے جس کے پاس ساڑھے سات تولہ سونا، یا ساڑھے باون تولہ چاندی، یا اپنی ضروریات سے زائد اتنی نقدی یا مالِ تجارت ہو جو ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے برابر ہو، یا یہ سب چیزیں مل کر یا ان میں سے بعض مل کر مجموعی طور پر ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر ہوں۔

لہٰذا، صورتِ مسئولہ میں وہ بھائی جس کے پاس بقدرِ نصاب مال موجود نہیں، اس پر زکوٰۃ واجب نہیں۔ اور جو بھائی صاحبِ نصاب ہو، اس پر سال مکمل ہونے کے بعد اپنے مجموعی قابلِ زکوٰۃ مال کا ڈھائی فیصد بطور زکوٰۃ ادا کرنا لازم ہوگا۔

اسی طرح، جس بھائی کی بیوی کے پاس ساڑھے سات تولہ سونا، یا ساڑھے باون تولہ چاندی، یا اپنی ضروریات سے زائد اتنی نقدی یا مالِ تجارت ہو جو ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے برابر ہو، یا ان تمام چیزوں کی مجموعی مالیت اس حد کو پہنچتی ہو، تو اس پر بھی سال گزرنے کے بعد اپنے مال کا ڈھائی فیصد بطور زکوٰۃ ادا کرنا لازم ہوگا۔ اور جس کی بیوی کے پاس اتنی مقدار میں سونا، چاندی یا دیگر قابلِ زکوٰۃ مال موجود نہ ہو، اس پر زکوٰۃ بھی واجب نہیں۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(وشرط افتراضها عقل وبلوغ وإسلام وحرية)....(وسببه) أي سبب افتراضها (ملك نصاب حولي) نسبة للحول لحولانه عليه (تام)

(قوله عقل وبلوغ) فلا تجب على مجنون وصبي لأنها عبادة محضة وليسا مخاطبين بها......(قوله وإسلام) فلا زكاة على كافر لعدم خطابه بالفروع سواء كان أصليا أو مرتدا......(قوله: وحرية) فلا تجب على عبد، ولو مكاتبا أو مستسعى لأن العبد لا ملك له.....(قوله ملك نصاب) فلا زكاة في سوائم الوقف والخيل المسبلة لعدم الملك، ولا فيما أحرزه العدو بدارهم لأنهم ملكوه بالإحراز عندنا خلافا للشافعي بدائع، ولا فيما دون النصاب.".

(كتاب الزكاة، ج: 2، ص: 258-259، ط: سعيد)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"تجب في كل مائتي درهم خمسة دراهم،وفي كل عشرين مثقال ذهب نصف مثقال مضروبا كان أو لم يكن مصوغا أو غير مصوغ حليا كان للرجال أو للنساء تبرا كان أو سبيكة كذا في الخلاصة."

(كتاب الزكاة ،‌‌ الباب الثالث في زكاة الذهب والفضة والعروض، الفصل الأول في زكاة الذهب والفضة،  ج:1، ص: 178،  ط: دار الفكر بيروت)

وفیہ ایضاً:

"الزكاة واجبة في عروض التجارة كائنة ما كانت إذا بلغت قيمتها نصابا من الورق والذهب كذا في الهداية."

(كتاب الزكاة ،‌‌ الباب الثالث في زكاة الذهب والفضة والعروض، الفصل الثاني فى العروض،  ج:1، ص: 179،  ط: دار الفكر بيروت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144609101150

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں