بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1446ھ 21 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

مشترکہ رہن سہن کی صورت میں الگ کمائی سے خریدی گئی جائیداد کا حکم


سوال

مسئلہ یہ ہے کہ ہم دوبھائی ایک ساتھ رہتے تھے، کھانا پینا سب مشترک تھا، اور جو چیز خریدتے بیچتے وہ ہمارے درمیان مشترک ہوتی تھی۔ پھر میں نے ایک جگہ پلاٹ خریدا تو بھائی سے پوچھا کہ میں نے پلاٹ خریدا ہے، آپ آدھے پیسے دے دو، لیکن اس نے انکار کردیا کہ میں پیسے نہیں دوں گا اور نہ ہی پلاٹ خریدنا چاہتا ہوں۔ پھر اس بھائی نے اپنے لیے ایک گاڑی خریدی اور گاڑی کے  پیسے خود دیے اور مجھ سے مطالبہ نہیں کیا اور نہ ہی میں نے گاڑی میں حصے کا مطالبہ کیا۔

اب بھائی دعوی کر رہا ہے کہ مذکورہ پلاٹ میں میرا بھی حصہ بنتا ہے، اس لیے کہ ہم مشترک رہتے تھے، لیکن میں اس کو کہتا ہوں کہ جب تم پلاٹ میں حصہ طلب کر رہے ہو تو میں بھی گاڑی میں حصے کا حق دار ہوں، مجھے بھی گاڑی میں حصہ دینا چاہیے، لیکن گاڑی کے بارے میں وہ کہہ رہا ہے کہ گاڑی اس وقت مجھ سے چوری ہوگئی، گاڑی میرے پاس نہیں ہے اور نہ ہی میں اس میں حصہ دوں گا۔

سوال یہ ہے کہ کیا مذکورہ بھائی کا میرے پلاٹ میں حصہ ہوگا یا نہیں؟ جب کہ پلاٹ میں نے اپنے پیسوں سے خریدا ہے۔

وضاحت: ہم دونوں بھائی کا الگ الگ کام تھا، وہ الگ مزدوری کرتا تھا اور میں الگ کام کرتا تھا، صرف رہن سہن اور کھانا پینا مشترک تھا۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں جب سائل اور اس کے بھائی رہن سہن اور کھانا پینا مشترک تھا، لیکن  دونوں کی کمائی الگ الگ تھی اور اس پلاٹ کی خریداری سائل نے اپنے ذاتی پیسوں سے کی جس میں سائل کے بھائی نے کوئی رقم نہیں ملائی، تو مذکورہ پلاٹ محض سائل کی ملکیت ہے اور سائل کے بھائی کا اس میں کوئی حصہ نہیں، اسی طرح وہ گاڑی جو سائل کے بھائی نے خریدی تھی، اس میں سائل کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ 

البحر الرائق میں ہے:

"لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي."

(كتاب الحدود، فصل في التعزير، ج:5، ص:44، ط: دار الكتب الاسلامي)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144605100410

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں