ہم لوگ پانچ بھائی ایک ساتھ رہتے ہیں، کاروبار بھی مشترک ہے اور رہائش بھی مشترک ہے، اب پوچھنا یہ چاہتا ہوں کہ میرے چھوٹے بھائی نے مشترکہ پیسے اٹھا کر کسی کے ساتھ کاروبار میں شراکت داری کی، یعنی ایک پرائیوٹ تعلیمی ادارہ بنایا ، منافع میں دونوں نصف نصف کے حساب سے شریک تھے، اب مسئلہ یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ میں اس ادارے میں بطورِ ٹیچر خدمت سرانجام دے کر میرے لیے معین تنخواہ لینا جائز ہے یا ناجائز ہے؟
صورتِ مسئولہ میں آپ کے بھائی نے جو مشترکہ کاروبار سے پیسے اُٹھا کر کسی دوسرے کے ساتھ شراکت میں لگائے، تو اگر وہ پیسے اپنے دیگر شرکاء کی اجازت سے لگائے، تو سارے بھائی اس کاروبار میں شریک ہوں گے اور اگر وہ پیسے بھائیوں (شرکاء) کی اجازت کے بغیر لگائے، تو دیگر بھائی اس کاروبار میں شریک نہیں ہوں گے اور جس بھائی نے دوسرے کاروبار میں پیسے لگائے ہیں، وہ غاصب شمار ہوگا اور اس پر جتنے پیسے اُس مشترکہ کاروبار سے اُٹھائے ہیں لوٹانا لازم اور ضروری ہوگا۔
پہلی صورت میں چوں کہ آپ اور ديگر بھائی دوسرے کاروبار میں شریک ہيں، لہٰذا آپ کے لیے وہاں ملازمت کرنا یعنی تنخواہ لے کر کام کرنا درست نہیں ہے، دوسری صورت میں چوں کہ آپ اس کاروبار میں شریک نہیں ہيں، لہٰذا آپ کے لیے تنخواہ لے کر اس کاروبار میں کام کرنا درست ہے۔
رد المحتار میں ہے:
"شركة ملك، وهي أن يملك متعدد) اثنان فأكثر (عينا) أو حفظا كثوب هبه الريح في دارهما فإنهما شريكان في الحفظ قهستاني (أو دينا) على ما هو الحق؛ فلو دفع المديون لأحدهما فللآخر الرجوع بنصف ما أخذ."
(كتاب الشركة، ج:4، ص:299، ط:سعيد)
مجلۃ الاحکام العدلیہ میں ہے:
"إذا فوض كل واحد من الشريكين أمور الشركة لرأي الآخر بقوله له (اعمل برأيك) أو (اعمل ما شئت) فله أن يعمل الأشياء التي هي من توابع التجارة ، فيجوز له رهن مال الشركة والارتهان لأجل الشركة والسفر بمال الشركة وخلط مال الشركة بمال نفسه وعقد الشركة مع آخر ، لكن لا يجوز له إتلاف المال ولا التملك بلا عوض بدون إذن صريح من شريكه ، مثلا ليس له أن يقرض من مال الشركة لآخر ولا أن يهب منه بدون إذن صريح من شريكه."
(ص:266، ط:نور محمد، كارخانه تجارتِ كتب، آرام باغ، كراتشي)
الدر المختار مع رد المحتار میں ہے:
"(ولكل من شريكي العنان والمفاوضة أن يستأجر) من يتجر له أو يحفظ المال (ويبضع) أي يدفع المال بضاعة، بأن يشترط الربح لرب المال (ويودع).
(قوله: ولكل من شريكي العنان إلخ) هذا كله عند عدم النهي. ففي الفتح: وكل ما كان لأحدهما إذا نهاه عنه شريكه لم يكن له فعله؛ ولهذا لو قال له اخرج لدمياط ولا تجاوزها فجاوزها فهلك المال ضمن حصة شريكه؛ لأنه نقل حصته بغير إذنه، وكذا لو نهاه عن بيع النسيئة بعد ما كان أذن له فيه.اهـ."
(كتاب الشركة، ج:4، ص:316، ط:سعيد)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"وأما حكمه فالإثم والمغرم عند العلم وإن كان بدون العلم بأن ظن أن المأخوذ ماله أو اشترى عينا ثم ظهر استحقاقه فالمغرم ويجب على الغاصب رد عينه على المالك وإن عجز عن رد عينه بهلاكه في يده بفعله أو بغير فعله فعليه مثله إن كان مثليا كالمكيل والموزون فإن لم يقدر على مثله بالانقطاع عن أيدي الناس فعليه قيمته يوم الخصومة عند أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - وقال أبو يوسف - رحمه الله تعالى -: يوم الغصب وقال محمد - رحمه الله تعالى -: يوم الانقطاع كذا في الكافي."
(كتاب الغصب، ج:5، ص:119، ط:دار الفكر)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144604101472
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن