بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1446ھ 26 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

مشترکہ طور پر دو بیٹوں کو دوکان ہبہ کرنے کا حکم


سوال

میرے دادا نے اپنی زندگی میں کاروبار سمیت دوکان اپنے دو بیٹوں (میرے والد صاحب اور تایا، دادا کی کل اولاد ایک بیٹی اور تین بیٹے تھے ) کو مکمل قبضے اور تصرف کےساتھ گفٹ کردیا تھا، پھر دادا کا انتقال ہو گیا، کاروبار یہی دونوں بیٹے سنبھالتے رہے، پھر تایا کا انتقال ہو گیا اور ورثاء میں ایک بیوہ، والدہ، دو بھائی اور ایک بہن چھوڑے تھے، پھر میری دادی کا انتقال ہوا اور ورثاء میں دو بیٹے اور ایک بیٹی تھی، پھر والد کا انتقال  ہو ااور ورثاء میں  ایک بیوہ،  ایک  بیٹا اور دو بیٹیاں ہیں۔

پوچھنا یہ  ہے کہ اس دکان  کی تقسیم کس طرح ہو گی؟ اور تایا کی بیوہ کو کتنا حصہ ملے گا؟

وضاحت : دوکا ن قابلِ تقسیم نہیں ہے۔ 

جواب

واضح رہے کہ اگر کوئی قابلِ تقسیم چیز (تقسیم کرنے کے بعد بھی قابلِ انتفاع ہو)     دو یا دوسے زیادہ آدمیوں کو ہبہ(گفٹ) کی جائے  تو شرعاً اس کے صحیح ہونے کے لیے ضروری ہےکہ وہ چیز تقسیم کرکے ہر ایک موہوب لہ(جس کو ہبہ دیا جارہا ہو) کو اس کا حصہ علیحدہ  کر کے مکمل تصرف قبضہ کےساتھ دیا جائے، اور اگر قابلِ تقسیم نہ ہو تو  ہر ایک کا حصہ (نصف، ثلث، ربع وغیرہ) متعین کردینے سے ہبہ درست ہو جائےگا، علیحدہ کرنے کی ضرورت نہیں  ہے۔

صورتِ مسئولہ میں دوکان  کا قابلِ تقسیم نہ ہونے کی وجہ مشترکہ طور پر آپ کے تایا اور والد کو ہبہ کرنا شرعاً درست ہے، اس لیے آپ کےتایا اور والد صرف  دوکان(کاروبار کے بغیر)  کے مالک بن گئے تھے، ان کے انتقال کے بعد دوکان ترکہ میں  شمار ہو کر تمام ورثاء میں ان کے شرعی حصوں کے بقدر تقسیم ہوگی،اور کاروبار قابلِ تقسیم تھا آپ کے دادا کو چاہیے تھا کہ کاروبار کوتقسیم کرکے آپ کے تایا اور والد کا حصہ علیحدہ علیحدہ متعین کرکے دیتا، لیکن آپ کےدادا نے  کاروبار  تقسیم کیے بغیر  ہبہ کیا ہے اس لیے شرعایہ ہبہ  درست نہیں ہوا، بلکہ کاروبار  بدستور آپ کے دادا  ہی کی ملکیت میں تھا، پھر  دادا کے انتقال کےبعدکاروبار  دادا کے ترکہ میں شمار ہو کر تمام ورثاء میں ان کے شرعی حصوں کے بقدر تقسیم کیا جائے گا۔

آپ کے دادا کےترکہ کی تقسیم کا طریقہ   یہ ہے  کہ سب    سے پہلے  مرحوم  کے  کل  ترکہ  میں سے حقوقِ متقدمہ  یعنی مرحوم کی تجہیز و تکفین  کا خرچہ نکالنے کے بعد ،اگر میت  پر قرض ہے تو ا س کو ادا کرنے کے بعد ،اگر کوئی  جائز وصیت کی ہے تو ایک تہائی  ترکہ سے نافذ کرنے کے  بعد بقیہ کل ترکہ منقولہ و غیر منقولہ /3840  حصوں میں تقسیم کرکے /1440 حصےمرحوم  کے بیٹےکو، /720 حصے بیٹی کو، /240 حصے بہو (مرحوم تایا کی بیوہ)   کو، /180 حصے دوسری بہو  (آپ کی والدہ) کو، /630 حصے پوتے کو اور /315 حصے ہر ایک پوتی  کو ملیں گے۔

میت(سائل کا دادا) : 8/ 240/ 3840 

بیوہبیٹابیٹابیٹابیٹی
12221
30فوت شدہ606030
فوت شدہ۔۔فوت شدہ960480

میت (مرحوم تایا) : 12/ 60/ 30 ۔۔۔۔۔۔۔مف 2/1

والدہبیوہبھائیبھائیبہن
237
101514147
فوت شدہ240فوت شدہ224112

میت (دادی) : 5/ 1۔۔۔۔۔۔مف 40/ 8

بیٹابیٹابیٹی
221
16168
256فوت شدہ128

میت (والد) : 8/ 32/ 16۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مف 90/45

بیوہبیٹابیٹیبیٹی
17
41477
180630315315

یعنی فیصد کے تناسب سے ٪37.5 مرحوم کے بیٹے کو، ٪18.75 بیٹی کو، ٪6.25 بہو(مرحوم تایا کی بیوہ) کو، ٪4.687 دوسری بہو(آپ کی والدہ) کو، ٪16.406 پوتے کو اور ٪8.203 ہر ایک پوتی کو ملیں گے۔

فیصد کے تناسب سے دوکان کی (کاروبار کے بغیر)تقسیم  کا طریقہ کار یہ ہے کہ ٪15 مرحوم کے بیٹے کو ، ٪7.5  مرحوم کی بیٹی کو، ٪12.5 بہو (مرحوم تایا کی بیوہ) کو، ٪8.125  دوسری بہو( آپ کی والدہ) کو، ٪ 28.437 پوتے کو اور ٪ 14.281 ہر ایک پوتی کو ملیں گے۔

 فتاویٰ شامی میں ہے : 

"شرائط صحتها (في الموهوب أن يكون مقبوضا غير مشاع مميزا غير مشغول) كما سيتضح... (وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل... (في) متعلق بتتم (محوز) مفرغ (مقسوم ومشاع لا) يبقى منتفعا به بعد أن (يقسم) كبيت وحمام صغيرين لأنها (لا) تتم بالقبض (فيما يقسم ولو) وهبه (لشريكه) أو لأجنبي لعدم تصور القبض الكامل كما في عامة الكتب فكان هو المذهب وفي الصيرفية عن العتابي وقيل: يجوز لشريكه، وهو المختار (فإن قسمه وسلمه صح) لزوال المانع (ولو سلمه شائعا لا يملكه فلا ينفذ تصرفه فيه) فيضمنه وينفذ تصرف الواهب درر."

(‌‌كتاب الهبة ، ج : 5 ، ص : 688/90/92 ، ط : سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144602101424

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں